ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
شاید قبول کرنے کی توقع کم ہو گی اس لئے تشدد کی نوبت نہیں آئی ۔ جب حضرت سید صاحب آپ کی خدمت میں تشریف لائے ہیں انہوں نے آ کر فرمایا کہ السلام علیکم ۔ پوچھا کون صاحب آئے جنہوں نے سنت کا احیاء کیا اس وقت السلام علیکم کا اہتمام کیا گیا مگر اکثر جگہ عورتوں میں اب بھی اسی قسم کا رواج ہے بجائے سلام کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا ۔ ادھر سے جواب ملا جیتی رہو بچے جیتے رہیں ٹھنڈی سہاگن رہو اور جو ذرا لکھی پڑھی ہوئیں تو صرف لفظ سلام کہہ دیا مگر چند روز سے یہاں بحمد اللہ اس قصبہ میں عورتوں میں بھی آپس میں السلام علیکم کا رواج ہو گیا ۔ سنت کے احیاء پر حدیث شریف میں سو شہیدوں کا ثواب ملنا وارد ہے ۔ (71) بہشتی زیور کا نفع عام ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت بہشتی زیور سے رسم و رواج کی جس قدر اصلاح ہوئی ہے وہ قابل مسرت ہے ۔ فرمایا اسی واسطے بہشتی زیور کو بعض مقامات پر جلایا گیا اور مجھ کو اطلاع دی گئی ۔ میں نے کہا کہ میرا کیا نقصان ہوا بلکہ تاجروں کا بھی نقصان نہیں ہوا اس لئے کہ وہ بھی فروخت کر چکے تھے ۔ اب تو نقصان ان کا ہوا جن کے وہ ملک میں تھے ۔ نواب پالن پور سے بھی لوگوں نے ریاست میں بہشتی زیور کے داخلہ کی ممانعت کا حکم جاری کرایا تھا ۔ جودھ پور میں مجھ سے ایک صاحب ملے جو ریاست پالن پور کے وکیل تھے وہ کہتے تھے کہ میں نے نواب پالن پور سے خود پوچھا کہ یہ آپ نے بہشتی زیور کے متعلق ایسا کیوں کیا کہ حدود ریاست میں داخلہ بند کر دیا ۔ نواب پالن پور نے جواب میں کہا کہ میں ان جاہلوں کا کیا علاج کروں ۔ آخر ان کے فتنوں کو بھی کسی طرح فرو کرتا ۔ یہ حقیقت تھی اس حکم کی مگر اس کے بعد پھر پہلے سے زیادہ لوگوں نے خریدا اور پڑھا ۔ اس کی مقبولیت عامہ کے متعلق ایک واقعہ یاد آیا ۔ بھائی اکبر علی مرحوم ایک دفعہ ریل کے سکنڈ کے درجہ میں سفر کر رہے تھے اتفاق سے ایک طوائف بھی اس درجہ میں سفر کر رہی تھی جو اسی راجہ کے یہاں ایک تقریب میں رقص و سرور کے لئے جارہی تھی اس نے ان سے ان کا نام و نشان پوچھا اسی کے جواب میں جب اس نے تھانہ بھون کا نام سنا اس نے میرا نام لے کر پوچھا کہ تم اشرف علی کو بھی جانتے ہو انہوں نے کہا کہ میں ان کا بھائی ہوں یہ سن کر تختے سے نیچے اتر کر بھائی مرحوم کے قدموں پر سر رکھ دیا اور یہ کہا