ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
سے ہوتا ہے اس میں تو کرنا ہی پڑے گا تب ہی کوئی نتیجہ مرتب ہوگا ۔ اور اس مرض میں اہل علم تک کو ابتلاء ہے ۔ عوام بے چاروں کی تو شکایت ہی کیا ہے ۔ (336) ایک صاحب کے عرب میں خط لکھنے کا مقصود فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ حضور ؑ اپنی غلامی میں جلدی سے نہیں لیتے پہلے کچھ تعلیم فرماتے ہیں پھر امتحان لیتے ہیں اگر وہ کامیاب ہوا اس کو رکھتے ہیں ورنہ چھانٹ دیتے ہیں ۔ میں نے لکھ دیا ۔ کیونکہ غلامی جائز نہیں ۔ وہ اب لکھیں گے کیا بیعت جائز نہیں میں لکھوں گا کہ میں نے غلامی کو لکھا تھا بیعت کو تو نہیں لکھا ۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ آئندہ یہ یہ لفظ نہ لکھیں مجھ کو ایسے تکلف کے الفاظ سے گرانی ہوتی ہے یہ امر طبعی ہے ۔ ایسے ہی ایک اور صاحب کا خط ایا ہے بڑا لمبا اور چوڑا اور حاصل کچھ بھی نہیں ۔ لکھتے ہیں کہ دور و دراز سے سفر کرنا دشوار ہے کوئی ایسی بھی صورت ہے کہ وطن میں رہتے ہوئے حضور سے بیعت اور فیض باطنی حاصل کرسکوں ۔ میں نے لکھا ہے کہ فیض باطنی کس کو سمجھتے ہو ۔ معلوم تو ہو کہ فیض باطنی کس چیز کو سمجھے ہوئے ہیں اور وہ مجھ سے حاصل کر سکتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک مولوی صاحب نے مجھ کو عربی میں درخواست بیعت کا خط لکھا ہے میں نے لکھ دیا کہ مفید کا مستفید سے افضل ہونا لازم ہے اور یہاں معاملہ عکس ہے کیونکہ میں ایسی عربی لکھنے پر قادر نہیں اس لئے تعلق رکھنا ہی بے کار ہے ۔ دیکھئے خواہ مخواہ عربی لکھتے ہیں ۔ مقصود لیاقت کا اظہار ہے جو ناشی ہے جاہ سے سمجھتے ہیں کہ اظہار قابلیت پر قدر ہوگی ۔ یہاں یہ قدر ہوتی ہے کہ لتاڑ پڑتی ہے وہ عالم ہی کیا جو اپنے کو عالم سمجھے ۔ ایک اور صاحب نے عربی میں خط لکھا تھا میں نے لکھا کہ عربی خط لکھنے کی کیا مصلحت تھی ۔ لکھا کہ اہل جنت کی زبان ہے ۔ میں نے کہا کہ قسم کھا کر لکھو کہ اگر یہاں پر آنا ہو تو کیا عربی میں گفتگو کرو گے اس لئے کہ یہ اہل جنت کی زبان ہے ۔ پھر جواب نہیں آیا تاویل کرتے ہوئے شرم بھی تو نہیں آئی ۔ کیا لکنھے کے وقت یہی نیت تھی یا اظہار قابلیت مقصود تھا اپنے کو بڑا عقل مند سمجھتے ہیں یہاں یہ چالاکیاں چلنا مشکل ہے ۔ اللہ کا شکر ہے اپنے بزرگوں کی دعاء کی برکت سے فورا ذہن میں