ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
(38) لفافہ پر امانت شیخ معروف کرخی لکھنا شرک ہے فرمایا کہ ایک صاحب کا لفافہ آیا ہے لفافہ کے پتہ کے اوپر لکھا ہے امانت شیخ معروف کرخی ۔ ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ایسا لکھنے سے وہ چیز محفوظ ہو جاتی ہے مثلا یہ لفافہ ہی ہے ان صاحب کے خیال میں یہ کہیں گم نہیں ہو سکتا ۔ اس قسم کا عقیدہ صاف شرک ہے جاہلوں نے بزرگوں کے متعلق اس قسم کی حکایتیں گھڑ رکھی ہیں ۔ ایک حکایت ہے کہ ایک شخص کی دیوار جھکی ہوئی تھی اندیشہ اسکے گر جانے کا تھا ۔ اس نے یہ شعر اس دیوار پر چسپاں کر دیا ۔ بحق حضرت معروف کرخی بماند سالہا دیوار ترقی ( از تر قیدن بمعنی شق شدن ) بہت عرصہ تک وہ دیوار اس حالت پر کھڑی رہی ایک روز مالک دیوار نے حضرت شیخ معروف کرخی کو خواب میں دیکھا حضرت شیخ نے فرمایا کہ بھائی بہت دن ہو گئے مجھ کو تیری دیوار تھامے میری تو کمر بھی رہ گئی مطلب یہ کہ میں دیوار سے کمر لگائے کھڑا ہوں اب میں مدت متعین کرتا ہوں مثلا ایک ہفتہ یا پندرہ روز پھر میں ذمہ دار نہیں ۔ اس قسم کی باتیں لغو اور جھوٹ تراش رکھی ہیں ۔ استغفراللہ ایسے عقائد میں ان لوگوں کو ابتلاء ہو رہا ہے جو سراسر شرک ہیں پھر علاوہ عقیدہ کی خرابی کے اس میں بزرگوں کی بے ادبی بھی تو ہے کہ جو کام دو آنہ کے مزدور کا ہے وہ ان کے سپرد کیا گیا ہے ان بزرگوں کے پاس بس یہی تو ایک کام ہے کہ ایسے گدھوں کی دیوار تھامے کھڑے رہیں ۔ پھر ذرا ان لوگوں کی عقل اور فہم ملاحظہ ہو کہ خود تو بزرگوں سے ایسے ذلیل اور خسیس کام لینا بیان کریں جو بعضے مزدور بھی گوارا نہ کریں اور دوسروں کو بزرگوں کا دشمن اور ان کا مخالف اور غیر معتقد بتائیں ۔ یہ محبان بزرگ ہیں ۔ دوسری حکایت مولوی عبدالحق صاحب مشہور معقولی ریاست رامپور میں مقیم تھے زبان کے تو آزاد تھے مگر عقائد اچھے تھے ایک خان صاحب ان سے ملنے آئے جو دیہات کی مستاجری کیا کرتے تھے ۔ اس وقت تحصیل وصول کا زمانہ تھا مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ خان صاحب آج کل تو کام کا زمانہ ہے ۔ تحصیل وصول کے دن ہیں ۔ کام کس کے سپر کر کے آئے خان صاحب جواب میں کہتے ہیں کہ بڑے پیر صاحب کے سپرد کر کے آیا ہوں ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ آہا ہم تو بڑے پیر صاحب کو ولی سمجھتے مگر