ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
یاتن برضائے دوست می باید داد یا قطع نظر زیار می باید کرد اس کے بعد پھر نہ مجھ کو کچھ لکھا اور نہ امر بالمعروف کو چھوڑا برابر اسی طرح اپنے فرائض منصبی میں مشغول کار ہیں کام کرنے والوں کی یہی حالت اور یہی صورت ہوتی ہے وہ کہاں رکنے والے ہیں ۔ باقی آج کل تو اکثر زبانی جمع خرچ جتنا چاہو کرا لو آگے کام کرنے کے نام صفر ۔ لمبی چوڑی تقریریں پر شوکت الفاظ ۔ روانی بحرذ خار کی طرح مگر صرف جسم سے روح ندارد ۔ بھلا اس سے کہیں کام چلتا ہے ۔ کام تو کام کرنے سے چلتا ہے ۔ عملی جامہ کسی بات کو بھی نہیں پہنایا چاتا تمام زور شور محض زبانوں اور اخباروں تک محدود ہے ۔ اور جب کام کرنے کا نام آتا ہے وہاں ان تلوں تیل ہی نہیں البتہ دوسروں پر اعتراضات کی بھر مار شروع کر دیتے ہیں بھلا اس سے کیا نتیجہ ۔ (176) مصنوعی تواضع اور تکبر میں صورت اعتدال ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں نہ تکبر کو پسند کرتا ہوں اور نہ ایسی تواضع کو جس میں ذلت ہو یہاں نہ متکبروں کا گذر ہے اور نہ ایسے متواضع کو جگہ ملتی ہے جو ذلت کا درجہ اختیار کرے یا اس نیت سے تواضع اختیار کرنا کہ جس سے بے نفس ہونے کی شہرت ہو یہ بھی تکبر کا ایک شعبہ ہے ہر چیز میں اعتدال کی ضرورت ہے جس کا سہل طریقہ یہ ہے کہ نہ ایسی وضع رکھے کہ کبر کی شکل ہو اور نہ تواضع کی شکل تکلف سے بنائی جاوے بس بے تکلف جو فطری عادت ہو اس پر عمل کرے اس میں یہ دونوں باتیں نہ ہوں گی نہ کبر نہ ۔ مصنوعی تواضع ۔ ورنہ جس صورت میں بھی تکلف ہو گا اسی میں حد سے تجاوز ہو جاوے گا ۔ (177) کسی عارف کے ساتھ تعلق کی ضرورت ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ دنیا دار کسی اعتبار سے بھی بڑا ہو اس سے دین دار کو تعلق پیدا کرنا تملق کی سی شان معلوم ہوتی ہے ۔ عرض کیا کہ اگر وہ اپنے کو بڑا نہ سمجھتا ہو فرمایا کہ عادۃ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بڑا آدمی اپنے کو بڑا نہ سمجھے ۔ ایک عالم ہے وہ یہ کیسے سمجھے گا کہ میں جاہل ہوں ۔ ایک شخص مضمون نگار ہے وہ یہ کیسے سمجھے گا کہ میں مضمون نگار نہیں ہوں البتہ یہ فانی ہی شخص کا کام ہے کہ باوجود کسی کمال کے اپنے کو باکمال نہ سمجھے اسی