ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
(57) مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کا سبب ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ مسلمان اگر تباہ اور برباد نہ ہوں تو اور کیا ہوں اور اس تباہی اور بربادی کی وجہ زیادہ تر بد انتظامی ہے جو دلیل ہے بے فکری کی ۔ اسی بے فکری کی بدولت ہزاروں زمیندار رئیس اور نواب بھیک مانگتے پھرتے ہیں حتی کہ اسی کی وجہ سے سلطنتیں دے بیٹھے ۔ اس کی بدولت دنیا تو دنیا دین تک تباہ اور برباد ہو جاتا ہے ۔ میں کیا عرض کروں میری جو آنے والوں کے ساتھ لڑائی ہوتی ہے اس کا اصل سبب یہی ہے کہ لوگوں میں فکر نہیں جو جی میں آیا کر لیا جو جی میں آیا کہہ ڈالا ۔ نہ کوئی قاعدہ نہ اصول نہ یہ خبر کی ہماری اس حرکت سے لوگوں کو اذیت ہو گی یا نہیں محض مست ہیں اور میں فکر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ روک ٹوک مواخذہ محاسبہ دار و گیر کرتا ہوں اور ان سب کا منشاء یہی ہے ۔ بس یہی لڑائی ہے اس پر خفا ہوتے ہیں ۔ یہاں سے جا کر بدنام کرتے پھرتے ہیں کہ سخت گیر ہے بد خلق ہے مزاج میں تشدد ہے حالانکہ میں سخت نہیں البتہ مضبوط ہوں ۔ ان معترضوں کو ابھی تک سختی اور مضبوطی میں فرق معلوم نہیں ۔ سختی الگ چیز ہے اور اگر ان کی اصطلاح کے موافق میں نرم رہوں اور بااخلاق ہو جاؤں تو اس سے ان کو کیا نفع ان کی اصلاح کی کیا صورت ہو ۔ یہ تو حیوان کے حیوان ہی رہے بلکہ میں تو کہا کرتا ہوں کہ میری اس بدخلقی کا منشاء خوش خلقی ہے ۔پھر فرمایا یہ بے فکری چیز ہے کہ کانپور میں ایک صاحب نے بنئے سے سات سو روپے قرض لئے پھر بے فکر ہو گئے وہ بھی خاموش رہا ۔ ایک مدت کے بعد چالیس ہزار روپیہ ہو گیا اس پر بھی اس بنئے نے کہا کہ فلاں دوکان مجھ کو دے دو اور بے باقی قرض کی رسید لے لو ۔ مگر ایک ملازم نے اپنی بعض اغراض کے سبب بہکایا اور دوکان نہیں دینے دی نتیجہ یہ ہوا کہ تمام جائیداد مع گھر دوکان سب ہاتھ سے نکل گئیں۔ کانپور ہی کے ایک شخص کی حکایت ہے کہ اس کے باپ کا انتقال ہوا ۔ صاحب ثروت آدمی تھے ۔ بیٹے نے روپیہ اڑانا شروع کر دیا اس کے باپ کے ایک دوست تھے ان کو یہ سن کر کہ اس طرح مال اڑا رہا ہے ۔ رنج ہوا آئے اور اس کے سامنے مال کے اڑانے پر مصائب اور تکالیف ہو سکتی ہیں ان پر بڑی لمبی چوڑی تقریر کی کہ اس فضول خرچی کے یہ نتائج ہوں گے اس نے سب سن کر