ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
(431) خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنے کا اثر ایک صاحب کے سوال کے جواب میں قرآن مجید خوش آوازی کے ساتھ پڑھنے کے متعلق فرمایا کہ گانا اور چیز ہے اور خوش الحانی اور مزین ہونا اور چیز ہے سب کے درجات اور احکام جدا جدا ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ سادہ قرآن شریف میں جو حسن اور دلربائی ہوتی ہے ۔ بناکر پڑھنے سے وہ بات نہیں ہوتیی اور اس کے یہ معنی نہیں کہ سادہ بنانے کی کوشش کی جائے ہاں ترک تکلف کو کوشش کی جائے پھر چاہے وہ سادہ ہو جاوے یا مزین ہو جاوے اور اگر ہر مزین پڑھنے کا گانا کہا جائے جیسا بعض خشک مزاجوں کا خیال ہے تو خود معترض صاحب بھی گانے سے خالی نہیں جس کا میں ایک معیار عرض کرتا ہوں اس اندازہ ہو جائے گا وہ یہ ہے کہ جو محض اس کا مدعی ہو کہ میں سادہ قرآن پڑھنے والا ہوں اس کو شافیہ کافیہ دیا جائے وہ اس کو پڑھے اس کا ایک لہجہ ہوگا پھر اس سے قرآن شریف پڑھوائیے اب شافیہ کافیہ کے لہجے اور قرآن شریف کے لہجے میں جتنا فرق ہوگا وہی گانا ہے اور اس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا ۔ قرآن شریف کے پڑھنے میں ایک خاص ممتاز شان ہوتی ہے جس کو ایک عیسائی پادری نے لکھا ہے وہ لکھتا ہے کہ مسلمان غایت شوق میں قرآن شریف کو گیت کے طرز پر پڑھتے ہیں مراد یہی ممتاز لہجہ ہے ۔ ایک بات ایک اور پادری نے لکھی ہے کہ جس قدر ادب قرآن شریف کا مسلمان کرتے ہیں ہم اس قدر ادب انجیل کا نہیں کرتے ۔ باتیں دونوں صحیح لکھی ہیں یہ لوگ رات دن اسی کھود کرید میں لگے رہتے ہیں اس لئے کبھی واقع تک پہنچ جاتے ہیں ۔ (432) گانے کی ممانعت کا سبب ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ گانے سے مرض کا علاج ہو جانا کون سی عجیب بات ہے اس لئے کہ اصل میں صحت کا مدار ہے نشاط طبیعت پر تو اگر وہ گانے سے حاصل ہو جائے تو علاج مرض کا ہو سکتا ہے اور اس سے مرض زائل ہو سکتا ہے اور اس کے اور بھی بعضے برے آثار ہیں ۔ تان سین کے گانے کی یہ حالت تھی کہ اس سے بارش ہو جایا کرتی تھی اس راگنی کو لاد کہتے ہیں ۔ ایک اور راگنی ہے اس کا نام ہے دیپک اس سے چراغ روشن ہو جاتا ہے ۔ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی تھی کہ دہلی می ایک شخص تھا اس نے ایک بار لگایا ہے اس سے تمام درو دیوار میں ایک زلزلہ تھا اسی طرح اس سے بعض