ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
رئیسہ جو کانپور میں رہتی تھیں ۔ ان کا لڑکا ایک استاد سے پڑھتا تھا سبق میں حضرت زلیخا کا قصہ آیا تو اس لڑکے نے ایک بے ہودہ نوکر کے بہکانے سے سوال کیا کہ مولوی صاحب حضرت زلیخا کی چھاتیاں کیسی تھیں ۔ پہلے استاد بھی غیور ہوتے تھے نہایت شان اور آن بان سے رہتے تھے قلوب میں استغناء تھا آج کل کے استادوں کی طرح حریص اور طامع نہ ہوتے تھے جواب میں کہا کہ جیسی تیری ماں کی چھاتیاں ۔ لڑکے نے اس کی شکایت اپنی والدہ سے کی کہ آپ کو گالی دی ان بی بی نے استاد کو دروازہ پر بلا کر واقعہ دریافت کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا انہوں نے کہا کہ لڑکے نے آپ سے پوری بات نہیں کہی ۔ واقعہ یہ ہے اور یہ مسلم ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بیویاں امت کی مائیں ہیں تو حضرت زلیخا میری ماں ہیں اس نے میری ماں کو کہا میں نے اس کی ماں کو کہہ دیا یہ سن کر وہ بی بی آگ ہو گئیں اور یہ کہا آپ نے اس نالائق کے منہ پر جوتہ نہ مارا اور اس لڑکے سے کہا کہ خبیث جا دور ہو میرے سامنے سے تو یہ جذبہ ان بی بی کے اندر باوجود درئیسہ ہونے کے دین کی عظمت اور محبت ہی کا تو تھا تو امراء میں بھی سب یکساں تھوڑا ہی ہیں وہ بھی ہیں جو دین کے فدائی ہیں اور ان کے قلوب اللہ اور رسول کی محبت سے لبریز ہیں سب کو ایک سا سمجھنا عدل اور انصاف کے خلاف ہے اور یہ بے قیدی امراء ہی کے ساتھ کیا مخصوص ہے ۔ میں نے تو بعض نام کے دینداروں کو دیکھا کہ حق تعالی کی شان میں گستاخی کر لیتے ہیں ۔ (59) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا کا واقعہ صبر ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جو چیزیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کی عورتوں تک میں پائی جاتی تھیں وہ اس وقت کے بہت سے علماء و مشائخ میں نہیں ۔ حضرت ام سلیم کا بچہ بیمار ہوا اور مر گیا ۔ شب کا وقت تھا انہوں نے بیٹے کے انتقال کی خبر خاوند یعنی ابوطلحہ کو نہیں کی تاکہ صبح تک پریشان نہ رہیں ۔ اول ابوطلحہ نے بیٹے کو پوچھا کہ اب کیا حالت ہے ۔ جواب میں کہا کہ سکون ہے ۔ واقعی موت سے بڑھ کر سکون کی اور کیا چیز ہو گی ۔ معمول کے موافق خاوند کی خدمت کی چہرہ سے بھی کوئی ملال یا رنج کا اظہار نہ ہونے دیا کھانا کھلایا بسترہ لگایا ۔ شب کو ہمبستری کی طرف صحابی کو رغبت ہوئی اس سے بھی انکار نہیں کیا ۔ جب تمام شب گزر چکی اور صبح ہوئی تو میاں سے مسئلہ پوچھا کہ کسی نے ایک شخص کے پاس کوئی امانت رکھی اب وہ اس کو مانتا ہے اس