ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
یہاں مدرس بھی ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ اگر کبھی ان کی بیوی بیمار ہو جاتی ہے تو گھر کا سب کام خود اپنے ہاتھ سے کر لیتے ہیں حتی کہ چکی تک پیس لیتے ہیں ۔ مصالحہ پیس لیتے ہیں باوجود اس کے کہ ذی علم آدمی ہیں اور تھوڑی سی تنخواہ پر قناعت کئے ہوئے ہیں یہ سب دین کی برکت ہے ۔ بازار سے سودا لانا پانی کے گھڑے بھر بھر کر کنوئیں سے خود لے جانا یہ سب کا اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں ۔ سب مسلمانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ (110) حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے والد کی فراست ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ پہلے جو دنیا دار کہلاتے تھے وہ آج کل کے دکاندار مشائخ سے لاکھ درجہ بہتر تھے ۔ والد صاحب مرحوم دنیا دار تھے دنیا کی فکر بھی تھی اس کے حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے اور حاصل بھی کی تھی روپیہ بھی تھا جائیداد بھی تھی لیکن اس قدر عاقل کہ مجھ کو عربی پڑھائی بعض خیر خواہوں نے سمجھایا بھی کہ انگریزی پڑھاؤ جیسی دوسرے بھائی کو پڑھائی ۔ مگر صرف میرے متعلق یہ رائے تھی کہ عربی ہی پڑھاؤں گا ۔ یہ فرمایا کرتے تھے کہ انگریزی پڑھنے والے اس کے پیچھے پیچھے پھریں گے اور یہ منہ بھی نہ لگاوے گا ۔ افسوس ہے کہ آج کل کے بڑے بڑے دیندار لکھے پڑھے حتی کہ مولوی تک اپنے بچوں کو انگریزی پڑھا رہے ہیں ۔ اس سے دونوں کے قلوب میں دین کی عظمت اور احترام کی کمی بیشی کا پتہ چلتا ہے اور دیندار مولویوں کا بچوں کو انگریزی تعلیم دلوانا تو بڑی ہی خطرناک بات ہے کتنے بڑے فتنہ کا زمانہ ہے چہار سو نیچریت کا غلبہ ہے کچھ پتہ نہیں چلتا سب گڈ مڈ معاملہ ہو رہا ہے اس وقت کی باتیں والد صاحب کی یاد آتی ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی شیخ اپنے مرید کی تربیت کرتا ہے ۔ اس طرح ہم لوگوں کی تربیت فرماتے تھے اس کا یہ اثر ہے کہ گو ہمارے اندر تواضع پیدا نہیں ہوئی لیکن تواضع والے پسند آتے ہیں ۔ ان معاملات میں بڑے ہی فہیم تھے اکثر نیک باتیں اسی وقت کی قلب میں جمی ہوئی ہیں جو اس وقت کام دے رہی ہیں ۔ (111)غیر تربیت یافتہ کی مثال ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ غیر تربیت یافتہ ہمیشہ ڈھل مل ہی رہتا ہے