ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
کی لوگوں سے مستور ہو چکی تھی اس لئے طریق اصلاح سے گھبراتے ہیں ۔ طبائع کو وحشت ہوتی ہے مگر بزرگان سلف کے طرز اصلاح کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کےیہاں ذرا ذرا بات پر روک ٹوک ڈانٹ ڈپٹ محاسبہ ہوتا تھا ان کا مقصود اصلاح کرنا تھا اور ان کے پاس آنے والوں کا مقصود اصلاح کرانا تھا ۔ اب آج کل کے آنے والوں کی سنئے اس نیت اور امید پرآتے ہیں کہ پیر کے یہاں لنگر جاری ہو گا روٹیاں کھانے کو اور کپڑا پہننے کو ملے گا ۔ اور شیخ تسبیح ہاتھ میں لئے دنیا وما فیھا سے بے خبر بت کی طرح بیٹھا ہو گا ۔ جائیں گے مرید ہو جائیں گے وہ اپنے سینے میں سے کچھ دے دے گا ۔ اور دنیا دار مکار جاہل پیروں نے دکانیں بھی ایسی ہی جما رکھی ہیں اس لئے عوام بیچاروں کا بھی کوئی زیادہ قصور نہیں قریب قریب ہر جگہ یہی ہو رہا ہے الا ماشاء اللہ ۔ 10 رجب المرجب سنہ 1351ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم پنج شنبہ (146) تاویل کا مرض عام ہو چکا ہے ایک صاحب نے آکر تعویذ مانگا محض تعویذ کا نام لے کر رہ گئے یہ نہیں کہا کہ کس چیز کا تعویذ چاہئے کچھ سکوت کے بعد حضرت والا نے فرمایا کہ کہہ چکے ۔ عرض کیا کہ جی ۔ فرمایا کہ میں اس قدر سمجھ دار نہیں ہوں کہ گول اور ادھوری بات کو سمجھ لوں ۔ عرض کیا کہ ڈر کا تعویذ چاہئے ۔ فرمایا کہ تم کہتے تھے کہ کہہ چکا ۔ کیا تم نے یہ بات پہلے کہی تھی ۔ عرض کیا کہ بھول گیا تھا ۔ فرمایا کہ اچھا عذر ہے کہ بھول گیا تھا گھر سے ایک کام کو چلے ادھوری بات کہہ کر خاموش ہو گئے اب سوال پر ظاہر کرتے ہیں ۔ پھر غلطی کا اقرار تک نہیں ۔ تاویل کا بھی ایسا مرض عام ہو گیا ہے کہ اچھے خاصے لکھے پڑھے اس بلا میں مبتلا ہیں اور جوغلطی کے اقرار نہ کرنے کا اصلی سبب ہے اس کو نہ بتلائیں گے وہ یہ ہے کہ اپنے نزدیک یہ سمجھتے ہیں کہ آگے خود ان کا فرض ہے کہ یہ معلوم کریں کہ کس قاعدہ سے میرے ذمہ ہے ۔ اور اگر یہ میرے ذمہ ہے تو آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہی کی کیوں ضرورت تھی تعویذ ہی کیوں کہا اس کو بھی میں ہی پوچھ لیتا تم تو نواب صاحب ہو کر آکر بیٹھ جاتے ۔ آگے بے تنخواہ کے نوکر اور خادم کے ذمہ سب کام انجام دینا اس کے فرائض منصبی میں سے تھا ۔ آخر تعویذ کو تو کہا اور یہ نہیں کہا کہ کس چیز کا