ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
تعلیم ہی کو حاصل ہے حضرات انبیاء علیہم السلام کا اصل کام تعلیم ہی تھا اگر توجہ متعارف اس کا ذریعہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ قوی و موثر توجہ کسی کی ہو سکتی ایک کافر بھی کافر نہ رہتا سب با ایمان ہو جاتے ۔ توجہ مطلوب صرف یہی ہے کہ شیخ طالب کے حالات کی نگرانی اور ان حالات کے اقتضا سے تعلیم کرتا رہے سو ایسی توجہ ہمارے بزرگوں کو دائمی طور پر رہتی ہے ۔ محاسبہ ، معاقبہ، داروگیر ، مواخذہ ، روک ٹوک تعلیم تلقین بس یہی اصل توجہ ہے باقی توجہ متعارف بہ تو ایک وقتی چیز ہے جس سے استعداد کو ایک گونہ حرکت ہو جاتی ہے ۔ پھر کچھ بھی نہیں رہتا یہ تجربہ کی باتیں ہیں اور اعمال سے جو رسوخ ہوتا ہے وہ دائمی ہوتا ہے ۔ روح کے افعال وہ ہیں جو مادہ سے نہیں جیسے خشیت ہے محبت ہے ۔ مگر اس زمانہ میں بے علم اور بے خبر لوگوں نے اپنے اجتہاد سے مقصود و غیر مقصود میں خلط کر رکھا ہے اور یہ سب بے خبری کی باتیں ہیں ۔ اس لئے اس طریق میں قدم رکھنے سے قبل ضرورت ہے کسی عارف کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی جو فضول اور عبث سے بچا کر کام میں لگا سکتا ہے ورنہ کوئی صورت غلطیوں سے بچنے کی نہیں (تتمہ) صفات روحانیہ اور کیفیات نفسانیہ میں بعض اوقات اشتباہ ہو جاتا ہے اس لئے اس کا امتیاز بتلایا جاتا ہے کہ جو کیفیت مشروط ہو مادہ کے ساتھ وہ نفسانی ہے اور جس میں مادہ شرط نہ ہو وہ روحانی ہے ۔ شورش ، سوزش اضطراب التہاب سب کیفیات نفسانی ہیں ۔ محبت و خشیت و توکل و توحید یہ صفات روحانی ہیں ۔ مفارقت روح کے بعد پہلی کیفیات ختم ہو جاتی ہیں دوسری باقی رہتی ہیں ۔ پہلی طبعی کہلاتی ہیں ۔ دوسری عقلی خوب سمجھ لو ۔ (43) بگڑتے کام کو تقدیر کی طرف منسوب کرنا غلط ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اکثر لوگوں میں ادب کی اس قدر کمی ہے کہ اگر کوئی کام بگڑ جاتا ہے تو اس کو تقدیر کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ قدرت کو یہی منظور تھا اور یہ نہیں دیکھتے کہ قدرت ہی کا حکم اس سے بچنے کا بھی تھا ۔ اس میں فرق باطلہ جبریہ وغیرہ کو جو غلطیاں ہوئیں وہ صرف ایک صفت پر نظر کرنے سے ہوئیں مثلا قدرت پر اور اہل حق نے سب صفات پر نظر کی مثلا قدرت کے ساتھ عدل اور حکمت پر بھی اس لئے یہ راہ پر رہے اور وہ گمراہی کی طرف چلے گئے قال تعالی ان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ ۔