ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
ایک دم اتر پڑے اور گھوڑی کا لگام پکڑ کر چل دیئے ایک گاؤں پر گزر ہوا ۔ لوگوں نے دیکھ کر کہا کہ یکھو ناشکرے ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ خدا کی دی ہوئی سواری اس کو کوتل لے جارہے اور خود مصیبت جھیل رہے اگر باری باری اس پر سوار ہوتے سفر راحت سے قطع ہوتا تو حضرت کسی طرح بھی انسان اعتراضات سے نہیں بچ سکتا ۔ بس اسلم یہ ہے کہ معترضین کو بکنے دے اور جو سمجھ میں آوے کرے ۔ حیدر آبادی ماموں صاحب جو بڑے دانشمند تھے اور حکیمانہ باتیں کیا کرتے تھے مگر تصور میں غلو ہو گیا تھا اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ گل بکاؤلی ایک فضول سی کتاب ہے جس میں محض فرضی اور مہمل باتیں لکھی ہیں فرماتے تھے کہ ہم نے اس میں بھی ایک شعر مفید نکالا ہے شاعر اس کتاب کا اچھا ہے ۔ سادہ زبان ہے وہ کہتا ہے سن لاکھ تجھے کوئی سناوے کچیو وہی جو سمجھ میں آوے میں اس میں اتنی اور قید لگاتا ہوں کہ عقلا اور شرعا جو سمجھ میں آوے وہ کرے ۔حدود سے تجاوز نہ ہو میں اسی سلسلہ میں اس وقت ایک بات بیان کرنا چاہتا ہوں اور جملہ معترضہ کے طور پر درمیان میں اتنا اور کہتا ہوں کہ میں جو اکثر مجالس میں اپنے معمولات یا حالات و واقعات بیان کیا کرتا ہوں الحمد للہ اس سے میرا یہ کبھی مقصود نہیں ہوتا اور نہ قصد ہوتا ہے کہ اپنا تبریہ یا تزکیہ کیا جاوے ۔ استغفراللہ بلکہ اس میں کوئی اصلاح مشورہ ہوتا ہے ۔ وہ بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے مجھ کو بڑا بدنام کیا کہ نعوذ باللہ میں نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور سبب اس بدنام کرنے کا ایک شخص کا خواب تھا ۔ میں نے اس خواب کے جواب میں یہ لکھ دیا تھا کہ اس میں بشارت ہے کہ جس سے تمہارا تعلق ہے (یعنی مجھ سے ) وہ متبع سنت ہے ۔ میرا جرم یہ ہے کہ میں نے اس خواب کو شیطانی وسوسہ کیوں نہیں کہا ۔ اس کی بڑی شہرت دی گئی ۔ کتابوں میں اشتہاروں میں چھاپ چھاپ کر شائع کیا گیا گالیوں کے خطوط آنے لگے کسی میں کافر کسی میں منافق کسی میں فاجر ۔ میں نے کسی کا جواب نہیں دیا ۔ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نے فرمایا کہ یہ موقع اچھا ہے مجمع ہے بدنامی بہت ہوئی ہے وعظ میں اپنا تبریہ کر دیا جائے ۔ میں نے کہا کہ میں تو اپنا تبریہ ہرگز نہ کروں گا اس لئے کہ عادۃ منشا ایسے تبریہ کا اشتباہ کا معتدبہ ہونا ہے