ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
جانے پر ہم ان کو برائی سے یاد کرتے ہیں اور تمہاری وجہ سے ہم اس سے رکیں گے نہیں اس کو تم اگر برداشت کر سکو اجازت ہے ۔ تھے بیچارے سلیم الطبع آدمی کہنے لگے کہ صاحب آپ جانیں وہ جانیں ۔ ہم کو بڑوں کی باتوں میں کیا دخل ۔ ہم تو جیسا ان کو سمجھتے ہیں ویسا ہی آپ کو سمجھتے ہیں ۔ آپ ان کو کہئے وہ آپ کو کہیں ہم کو کچھ غرض نہیں ۔ میں نے کہا کہ بہت اچھا ۔ ٹھہرے رہے ۔ کچھ مثنوی بھی پڑھی ۔ نماز کے بڑے پابند تھے ۔ ویسے بھی سمجھدار آدمی تھے ۔ خدا معلوم وہاں کس طرح پھنس گئے تھے ۔ مدت کے بعد ایک روز بدون اطلاع کئے ہوئے غائب ہو گئے ۔ میں نے کہا کہ یہ وہاں کا اثر ہے وحشت ۔ اس پر فرمایا کہ جس کی حالت خلاف شرع ہو چاہے کسی باطنی عذر سے خدا تعالی مواخذہ نہ کریں ۔ مگر گمراہی تو پھیلتی ہے اس لئے میں نے ان بی بی سے کہلوا دیا کہ دھوکہ نہ ہو اب وہ اپنے دین کی ذمہ دار ہیں لیکن کہلوانے کے بعد انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ میں نے جواب لینے کےلئے کہلوایا بھی نہ تھا اب وہ جانیں ۔ (148) جواب کی قدر بڑی چیز ہے ایک مولوی صاحب کے خط کا جواب تحریر فرما کر فرمایا کہ اہل علم کے سوال پر جواب دینے کو جی چاہتا ہے ۔ دل کھلتا ہے محض اس خیال سے کہ جواب کی قدر کریں گے ۔ سمجھیں گے ۔ بخلاف نو تعلیم یافتہ جنٹل مینوں کے یہ لوگ جو سوال کرتے ہیں واللہ جواب دینے کو جی نہیں چاہتا محض اس خیال سے کہ سمجھے گا کون ۔ قدر تو بڑی چیز ہے ۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جیسے ایک مرتبہ میری ہی مجلس میں ایک طبیب سے ایک غیر طبیب فن کے متعلق کچھ سوالات کر رہے تھے طبیب بیچارے بہت ہی تنگ تھے آخر جب کسی طرح سوالوں کا سلسلہ منقطع نہ ہوا تو طبیب نے غصہ ہو کر کہا کہ اس طرح کے سوالات کرنا آپ کی شان سے بعید ہے آپ فن کی اہانت کر رہے ہیں اس طرح علماء کو غصہ آتا ہے کہ تم علم اور اہل علم کی اہانت کرتے ہو ۔ اور واقع میں آج کل کے جو نو تعلیم یافتہ سوال کرتے ہیں ۔ شریعت کی اہانت کرتے ہیں ۔ ان کو سوال کا بھی تو سلیقہ نہیں ۔ دعوے ہی دعوے ہیں لمبے چوڑے ۔ جب سمجھتے نہیں تو خواہ مخواہ تغیر ہوتا ہے کہ جاہلو تمیز تو سوال کرنے کی بھی نہیں جواب ہی کو کیا سمجھو گے ۔ پھر اس پر شکایت ہے کہ علماء بہت جلد غصہ ہو جاتے ہیں لیکن اگر کوئی ایسا ہی شخص جو