ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
(23) اہل محبت کی صحبت کی ضرورت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ سلف علوم میں محض قیل و قال پر اکتفاء نہ کرتے تھے ان سے ضروری نفع حاصل کرتے تھے اور خلف اکثر زوائد میں مشغول ہو گئے ۔ چنانچہ اخیر شب میں نزول رب الی السماء کی جو حدیث ہے اس سے سلف نے تو یہ کام لیا کہ اس سے ان کو رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے کی اور ابتہال الی اللہ کی رغبت ہو گئی اور انہوں نے اس حدیث کے متعلق کبھی یہ تفتیش نہیں کی کہ جب حق تعالی جسم سے منزہ ہیں تو نزول الی السماء کے کیا معنے اور واقعی کام کرنے والوں کی یہی شان ہوتی ہے وہ قیل و قال کو کہاں پسند کرتے ہیں اور نہ دلائل فلسفیہ پر مدار رکھتے ہیں جیسا کہ آج کل دلائل فلسفیہ پر مدار سمجھتے ہیں جو بالکل غلط طریق ہے آخر کہاں تک یہ چل سکتے ہیں کہیں تو جا کر انجن فیل ہو گا اس راہ میں یہ سب چیزیں راہ زن ہیں ہاں اگر بضرورت اس میں کلام ہو اور تجاوز نہ ہو تو ایک درجہ میں کار آمد بھی ہیں غرض ان پر مدار نہیں مدار وہی ہے جس کو صحابہ نے کر کے دکھلا دیا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا اتباع جو حضور اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے سنا اس پر عمل شروع کر دیا نہ دلائل فلسفیہ کی تلاش نہ حکم اور اسرار کی جستجو نہ کسی قیل و قال سے مطلب سو اس راہ میں اسی طرح کام بن سکتا ہے کہ سب کو خیر باد کہہ کر کام میں لگ جائے ۔ باقی ایسی عقل جو محبوب کی راہ میں زن ہو اس کے متعلق اکابر کا یہ فیصلہ ہے ۔ آمودم عقل دور اندیش را بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد مرعسس رادید ودر خانہ نہ شد باز دیوانہ شدم من ای طبیب باز سودائی شدم من ای حبیب ما اگر قلاش وگر دیوانہ ایم مست آن ساقی و آن پیمانہ ایم اور یہ دولت پیدا ہوتی ہے اہل محبت کی صحبت میں رہنے سے اس کی خدمت میں اپنی ہر حالت بیان کرنے سے اور جو وہ تعلیم کرے اس پر عمل کرنے سے اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قال رابگزار مرد حال شو پیش مرد کاملے پامال شو یار باید راہ را تنہا مرو بے قلاؤز اندریں صحرا مرو