ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
(181)حضرت شیخ الھند اور ان کا ترجمہ کلام پاک ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبند رحمتہ اللہ علیہ نے زمانہ قیام مالٹا میں قرآن شریف کا ترجمہ لکھا مگر فوائد پورے نہیں ہوئے تھے دوسرے اہل علم نے پورے کئے اس کو ایک مطبع والے نے حضرت کے ورثاء سے خرید لیا معلوم ہوا کہ بہت بڑی رقم لی گئی اگر حضرت مولانا تشریف رکھتے ہوئے تو کیا وہ بھی لیتے بلکہ بعید نہ تھا کہ پانچ سو روپیہ اور اپنے پاس سے چھاپنے والے کو امداد کےلئے دیتے ۔ میرے اعتقاد میں تو یہ حضرات قریب قریب متقدمین کے ہم پلہ ہیں جیسے جنید ۔ غزالی تھے مگر اپنے زمانہ میں ہونے کی وجہ سے لوگ قدر نہیں کرتے ۔ صاحب مطبع نے مجھ سے حضرت مولانا کے ترجمہ پر تقریظ لکھنے کےلئے کہا ۔ میں نے جواب دیا کہ تقریظ وہ لکھ سکتا ہے جس کو تنقید کا حق حاصل ہو اور مجھ کو یہ حق نہیں بلکہ میرا تعلق حضرت سے تقلید کا ہے ایسے شخص کی تقریظ کیا معتبر ہو سکتی ہے ۔ اس وجہ سے میں تقریظ سے معذور ہوں ۔ دوسرے حضرت کے کلام پر یا ترجمہ پر تقریظ کی ضرورت ہی کیا ہے اور صاحب مطبع نے مجھ کو ایک نسخہ بھی دینا چاہا مگر میں نے مفت لینے سے انکار کردیا کہ میں اس کو اہانت سمجھتا ہوں کہ میں مفت لوں ۔ اگر توفیق ہوئی میں اسی طرح خریدوں گا جیسے اور لوگ خریدتے ہیں ۔ سچ یہ ہے حضرت مولانا کو کسی نے پہچانا نہیں الا نادرا اور وجہ یہ ہے کہ جو حق کو نہیں پہچانتا وہ اہل حق کو کیا پہچانے گا اسی وجہ سے زمانہ تحریک میں عام طور سے مجھ پر اعتراض ہوا کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے اختلاف کیا میں کہتا ہوں کہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے امام ابو یوسف امام محمد نے اختلاف کیا اس کا کیا جواب ہے دوسرے میں نے مولانا سے اختلاف کیا خلاف تو نہیں کیا خدانخواستہ میں نے کوئی بے ادبی تو نہیں کی اور نہ مولانا پر بحمد اللہ اس اختلاف سے ذرہ برابر گرانی ہوئی اس لئے کہ حضرت اختلاف کی حقیقت سے باخبر تھے اور اختلاف تو میں نے بعض مسائل میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ سے کیا ہے جو حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت اشرف علی کے والد کا روپیہ بینک میں داخل ہے اور اس کو لینے سے انکار