ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
ہے اور اس کی بیوی کے دردزہ ہو رہا ہے اور وہ کسی دائی کے نہ ہونے کی وجہ سے سخت پریشان ہے تمام لوگ مدینہ شہر کے پڑے ہوئے سو رہے تھے اس خیال سے کہ کسی کی نیند نہ خراب ہو کسی کو جگانا پسند نہ فرمایا اپنی بیوی سے جا کر کہا کہ یہ قصہ ہے تم جا کر بچہ جنوا دو اور یہ مت ظاہر کرنا کہ میں امیر المومنین کی بیوی ہوں ۔ غرض حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ہمراہ لے جا کر دائی کا کام کرایا یہ امریکن تو اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کو اعلی درجہ کی تہذیب بتلاتا تھا ۔ یہاں دوسروں کا کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے ایک مرتبہ ہرقل کا ایک قاصد مدینہ کو روانہ ہوا ۔ مدینہ پہنچ کر لوگوں سے پوچھتا ہے جس کو مولانا نقل فرماتے ہیں ۔ گفت کو قصر خلیفہ اے چشم تامن اسپ درخت را آنجا کشم قوم گفتدش کہ اور اقصر نیست مر عمر را قصر جانے روشنے است دریافت کرتا ہے کہ اس وقت وہ ہیں کہاں ۔ لو گوں نے کہا کہ ابھی یہاں پرتھے اس طرف کو تشریف لے گئے ہیں اس طرف کو چلا معلوم ہوا کہ اموال مسلمین کی نگرانی کےلئے جنگل کی طرف تنہا تشریف لے گئے ہیں اس کے تعجب اور حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ عجیب معاملہ ہے کہ اس کے پاس نہ کوئی قلعہ ہے نہ فوج نہ پلٹن نہ پہرہ نہ چوکی نہ کواڑ نہ قفل نہ توپ نہ مشین گن نہ بندوق نہ تلوار اور پھر وہ کیا چیز ہے اس شخص کے اندر کہ جس سے وہ تمام مخلوق پر حکومت کر رہا ہے اور بڑے بڑے قیصر اور کسری جن کے پاس اس قدر سازو سامان کہ لاکھوں جرار کرار فوجیں وہ اس سے ترساں اور لرزاں ہیں یہ سوچتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا جا کر دور سے دیکھا کہ تنہا دھوپ میں پڑے سو رہے ہیں ۔ اب جس قدر آگے بڑھتا ہے دیکھتا ہے کہ دل پر ایک ہیبت اور خوف طاری ہوتا جاتا ہے جسم میں رعشہ کی سی کیفیت پیدا ہو چلی بہت اپنے کو سنبھالا مگر نہ برداشت کر سکا یہ وہ شخص تھا کہ جو ہمیشہ شاہی دربار میں رہتا اور بڑے بڑے بہادر اور جرنل اور کرنل اس کے ہمرکاب رہتے اس حالت سے اس کو سخت تعجب ہوا اور سمجھا کہ ہیبت حق ست ایں از خلق نیست ہستے زیں مرد صاحب دلق نیست اس واقعہ کے بیان کرنے سے غرض اس وقت یہ تھی کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے جس کو آج اعلی درجہ کی تہذیب بتلایا جاتا ہے ۔ ایک بزرگ کی حکایت ہے کہ ان کے ساتھ ایک شخص سفر میں