پھولتا ہے ، اور اگر طلبہ واساتذہ کو تعلیم سے الگ تحریک اور خدمت کے دوسرے کاموں میں الجھا دیا جائے تو مدرسہ بانجھ ہوکر رہ جاتا ہے ، خدمت خلق اچھی چیز ہے ، عبادت ہے ، مگر وہ اپنے وقت پر ٹھیک ہوتی ہے، تحصیل علم کے زمانے میں علم کے لئے یکسوئی ہونی چاہئے ، اس وقت کسی بھی خدمت میں لگانا تعلیم کے لئے مضر ہوتا ہے۔ہمارے بزرگوں نے تو تحصیل علم کے زمانے میں طلبہ کو بیعت کرنے اور تصوف وسلوک کے مشاغل میں لگانے کو بھی پسند نہیں کیا ، حالانکہ وہ دینی زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہے ، کیونکہ اس میں لگ کر حصول علم کی راہ کھوٹی ہوتی ہے ، پھر سوچا جاسکتا ہے کہ طلبہ کو خدمت خلق کے دوسرے شعبوں میں لگانا جس کا براہ راست علم اور دین سے تعلق نہیں ، کتنا مضر ثابت ہوگا ، مجھے محسوس ہوا کہ مدرسہ اس لئے پیچھے جارہا ہے کہ تعلیم پر زور نہیں ہے ، البتہ دوسری خدمتوں کے لئے طلبہ گویا مفت کے کارکن مل گئے ہیں ، ان کو جہاں جھونک دیا جائے ہفتوں کا کام دنوں میں اور دنوں کا کام گھنٹوں میں انجام پاجاتا ہے ، مگر وہ جس کام کے لئے مدرسہ میں داخل ہوئے ہیں اس سے کورے رہ جاتے ہیں ، پس بددل ہوتے ہیں اور کوئی دوسری راہ اختیار کرلیتے ہیں ، میں نے دیکھا کہ جو تھوڑے سے طلبہ ہیں وہ خدمتوں کے تو بہت مشاق ہیں ، مگر تعلیم اور مطالعہ ومذاکرہ میں حد درجہ مژمردہ ہیں ، میں نے اس صورت حال کو محسوس کیا تو عزم کیا کہ پژمردگی اور مردنی کے اس ماحول کو بدلنا ہے ، اس سلسلے میں مجھے بہت محنت کرنی پڑی ، تعلیمی نظم وضبط کو استوار کیا ، مغرب کی نماز کے بعد روزانہ ان چند طلبہ کو لے کر بیٹھتا ، انھیں سمجھاتا ، علم کی اور تعلیم کی اہمیت بتاتا ، مطالعہ ومذاکرہ کی ترغیب دیتا ، حصول علم کے لئے محنت ومجاہدہ پر آمادہ کرتا ، پھر باقاعدہ نگرانی کرنا ، اس طرح سال بھر میں ماحول یکسر بدل گیا ، طلبہ میں پڑھنے کا ذوق وشوق نمایاں ہوا، اسباق کی پابندی ہونے لگی ، مطالعہ و مذاکرہ کی فضا بنی، اس کا خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ اس سال طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ، جماعتوں کا تسلسل بھی قائم ہوا۔
میں رمضان کے بعد جب دُمکا سے واپس آیا تو میرے ساتھ ابتدائی طالب علموں کا ایک قافلہ آیا ، یہ قافلہ ایک نئے جوش کے ساتھ آیا تھا، جو جہل وضلالت کے ماحول سے