یہاں آتے ہی فجر کی اذان کہتا ، پھر طلبہ کو جگاتا ، فجر کی نماز کے بعد معمولات سے فارغ ہوتے ہی تعلیم کا وقت شروع ہوجاتا ۔ ناشتہ کی کوئی پابندی نہ تھی ، درس شروع ہوجاتا ، عربی سوم اور چہارم کی سب کتابیں پڑھاتا، دوپہر کا وقفہ ہوتا تو گھر چلاجاتا ، ظہر کی نماز کے لئے پھر آجاتا۔ ظہرکے بعد درس ہوتا ، عصر کی نماز کے بعد عربی چہارم کے طلبہ کو تجوید پڑھاتا ، مغرب کے بعد طلبہ کو سمجھاتااور معمولات ووظائف میں مشغول ہوتا ۔ فارغ ہوکر گھر چلاجاتا ، کھانا کھاکر عشاء کی نماز کے لئے مدرسہ آجاتا ، یہاں طلبہ بھی عشاء کے پہلے کھانے سے فارغ ہوجاتے ، عشاء کے بعد ایک گھنٹہ مدرسہ میں رہتا ، پھر گھر چلا جاتا۔
بچوں کو غازی پور لانے کے بعد یہی معمول مستقل رہا ، بنارس کی آمدورفت اب کم ہوگئی ، جمعرات کو غازی پور کے محلہ’’ جوڑن شہید‘‘ مسجد میں تبلیغی اجتماع ہوتا ، اس میں میرا جانا ہوتا ، اور وہاں بیان ہوتا۔
میں لکھ چکا ہوں کہ مدرسہ دینیہ میں میری تنخواہ اس وقت ۱۷۵؍ روپئے تھی ، اس کے ساتھ کھانا بھی تنخواہ میں شامل تھا ، جب میں اپنے بچوں کو لے گیا تو مدرسہ کے مطبخ سے میرے کھانے کا انتظام موقوف ہوگیا ، تو مہتمم صاحب نے یہ آسانی کردی کہ شروع ماہ میں ایک مہینہ کا غلہ ، آٹا، چاول اور دال دیدیتے ، اس کے ساتھ سبزی ترکاری اور جلاون کے پیسے بھی متعین کرنے چاہے ، میں نے پیسوں کے لئے تو معذرت کی ، البتہ میرے حصے کا غلہ مل جاتا۔ اس سے مجھے بہت سہولت ہوتی ، وہ ہوتا تو صرف میرے حصہ کا مگر اﷲ تعالیٰ اس میں برکت دیتے اور تقریباً ہم دونوں کے لئے پورے مہینے کفایت کرتا ۔ گوشت ، تیل ، سبزی اور لکڑی خریدنی پڑتی ، مگر آسانی سے کام چل جاتا، ہاں یہ ہے کہ کھانے اور کپڑے میں آخری حد تک سادگی رہتی ، بسااوقات ایسا ہوتا کہ نہ تیل ہوتا نہ سبزی ، صرف دال روٹی اور چاول ہوتا ، اور ہم دونوں اﷲ کا شکر ادا کرکے کھالیتے ، اس صورت حال میں اس وقت ذرا دقت محسوس ہوتی جب کوئی مہمان آجاتا! اس وقت تک نہ میری کوئی شہرت تھی اور نہ کوئی خاص وقعت ! اس لئے مہمانوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر تھی ، پس سکون کے ساتھ وقت گزرتا اور