تعالیٰ کا شکرگزار ہوں اور جانتا ہوں کہ نفس کی شرارت سے محفوظ نہیں ہوں ۔ وماأبری نفسی إن النفس لأمارۃ بالسوء إلا مارحم ربی۔
میں عموماً اصحاب ثروت سے دور دور رہنے کی کوشش کرتا ،غرباء ومساکین سے میرا زیادہ ربط رہتا تھا ، کوئی مالدار آدمی مجھے دعوت دیتا تو میں لطیف حیلوں سے ٹال دیتاتھا ، وہاں جن لوگوں سے میری بے تکلفی تھی ، ان میں سے صاحب اقبال سیٹھ تھے ، یہ کوئی بڑے صاحب ثروت نہ تھے ، ایک متوسط طبقے کے فرد تھے اور دیندار تھے ، مسجد کے ذمہ داروں میں سے تھے ، یہ صاحب بے تکلفی میں گفتگو کی حدوں کو کبھی کبھی پھاند جاتے تھے ، لیکن مخلص تھے ، سچے تھے ، اس لئے ناگواری نہ ہوتی تھی ، ایک روز مجھ سے بے تکلفی کی حد کو پھلانگتے ہوئے کہنے لگے ، مولوی صاحب آپ بہت بیوقوف ہیں ؟ میں یہ سن کر سناٹے میں آگیا، لیکن میں سمجھ رہاتھا کہ ان کا ارادہ کسی گستاخی کا نہیں ہے ، اس لئے مجھے نہ تکدرہوا ، نہ اشتعال ہوا ، میں نے کہا مجھے اپنے بیوقوف ہونے میں شبہ نہیں ہے ، میں جانتا ہوں کہ میں بیوقوف ہوں ، لیکن آپ کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے ، میں نے آپ کے ساتھ کون سی بیوقوفی کی ہے ، کہنے لگے کہ میسور میں دینی علم نہیں ہے ، یہاں شمال سے جو عالم اور حافظ وقاری آئے ہیں وہ مختلف تدبیروں سے یہاں کے مالداروں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں ، اور ان کے پیچھے لگے رہتے ہیں ، اس طرح وہ تھوڑے دنوں میں مالدار ہوجاتے ہیں ، اور آپ نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اس میں تو ہمیشہ غریب ہی رہیں گے۔
میں نے کہا غریب رہنا منظور ہے ، مگر دین اور علم دین کو بیچنا مجھے منظور نہیں ہے ، میرے حصے کی روزی اﷲ تعالیٰ مجھے دیں گے، مجھے جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
اسی رمضان میں دو اقعے ایسے پیش آئے جن کے مشاہدے نے مجھے مزید متنبہ کردیا کہ جن لوگوں پر علم دین کا نام لگا ہے انھیں بہت باخبر رہنا چاہئے۔
ایک واقعہ یہ ہوا کہ میرے ایک بے تکلف اہل تعلق نے افطار اور کھانے کی دعوت کی ، اس روز صبح سے میں دیکھ رہا تھا کہ ایک صاحب بزرگ صورت ، سفید ریش ، بہت وجیہ