ہوں ، اور ان دونوں کا تعلق انسانی طبیعت کی پستی سے ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو چار چیزیں بخشی ہیں ، یہ چاروں بنیادی نعمتیں ہیں جن پر انسانی زندگی کا مدار ہے ، اور ان میں اعلیٰ وادنیٰ ہونے کے اعتبار سے ترتیب ہے ۔ سب سے اعلیٰ نعمت ایمان ہے ، اس کے بعد آبرو ہے ، اس کے بعد جان ہے ، اور ان میں کمتر نعمت مال ہے ۔ کہتے ہیں کہ اگر جان پر کوئی آفت آئے تو مال دے کر اسے بچا لینا چاہئے ، اور اگر عزت وآبرو پر حرف آئے تو مال اور جان دونوں کو قربان کرکے آبرو بچالینی چاہئے ، اور اگر خدا نخواستہ ایمان پر کوئی ابتلاء آئے تو آبرو اور جان ومال تینوں کا نذرانہ پیش کرکے ایمان کی حفاظت کرنی چاہئے ، لیکن انسانوں ستم ظریفی اور حوصلہ کی پستی یہ ہے کہ جو سب سے کمتر ہے اسی کو اکثر پہلا درجہ دیدیاجاتا ہے ، اور اس کے کمتر ہونے ہی کا کرشمہ ہے کہ انسانیت کا سب سے اول اور سب سے بڑا بگاڑ مال ہی کی وجہ سے آتا ہے ، مال کی زیادتی ہو، تب بھی انسان میں سرکشی اور طغیانی آجاتی ہے، اور اگر اس کا فقدان ہوتب بھی کفر کا اندیشہ ہوتا ہے ، کاد الفقرأن یکون کفراً، اندیشہ ہے کہ تنگدستی کفر کی دہلیز پر پہونچادے۔انسانی سوسائٹی میں مال کا طغیان بکثرت دکھائی دیتا ہے۔
میں میسور میں تھا تو وہاں علم دین کی کمی پائی ،مگر مال کی فراوانی اپنے علاقے سے زیادہ دیکھی ، میں دیکھتا تھا کہ ہمارے یہاں کے جو لوگ دین کی نسبت سے اس علاقے میں جاتے تھے ،وہ مختلف حیلوں سے مال بٹورنے کی دوڑ میں لگ جاتے تھے ، کوئی امامت کی نسبت سے گیا ، کوئی تراویح پڑھانے کی غرض سے صرف رمضان میں پہونچا، کوئی مسجد کا موذن بنا ، کسی نے مکتب میں تعلیم دینے کا قصد کیا ،عموماً یہ حضرات سرمایہ داروں کے پیچھے لگ جاتے تھے اور مال حاصل کرنے کی تدبیریں کرتے تھے ، اس طرح کے قصے میں نے میسور میں بہت سنے ، بعض مرتبہ مجھے خودسابقہ پڑا ، میری طبیعت میں غیرت کا مادہ بہت ہے ، اور اس کے ساتھ حق تعالیٰ کی اخص الخاص رحمت یہ تھی کہ مجھے اﷲ کی رزاقیت پر اطمینان ابتداء عمر سے حاصل تھا ، گزشتہ اوراق میں کہیں کہیں یہ بات گزرچکی ہے ، اس کا اثر یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اصحاب ثروت کے دروازوں پر جانے اور ان کی خوشامد کرنے سے محفوظ رکھا ، حق