اپنے کو چھپا لوں ،کسی پرظاہر نہ ہونے دوں کہ میں پڑھالکھا ہوں ،ایک عام آدمی کی سی زندگی بسرکرلے جاؤں ،لیکن کیا ایساممکن تھا؟ میں نے کچھ دنوں کے لئے اپنانام بدلنے کی کوشش کی ’’نعیم اختر‘‘ نام رکھا اوراس نام سے بعض مضامین اور رسالے بھی شائع ہوئے، مگر یہ کارروائی کیانفع دیتی،جودھبہ لگ چکاتھاوہ اتنابڑا تھا کہ یہ سب کم ظرفیاں اسے ہرگز دھونہ سکتی تھیں ۔
کہیں ان دیکھی منزل کی طرف ٹرین کی رفتار مجھے بھگائے لئے چلی جارہی تھی ایک وقفہ دکھائی دے رہاتھا کہ میں دہلی جارہاہوں ، خیرمیں نے اپنے آپ کو ڈال دیاتھا،گاڑی نے دہلی پہونچادیا، میں اسٹیشن سے اترکر سیدھا عیدگاہ پہونچاجہاں جمعیۃ علماء کااجلاس شروع ہوچکاتھا، یہ مئی ۱۹۷۲ء کی کوئی تاریخ تھی، اجلاس میں حضرت مولانا افضال الحق صاحب سے ملاقات ہوئی ،پوچھتے رہے کہ کیاکرتے ہو،میں نے حفظ قرآ ن کی بات عرض کی تو بہت خوش ہوئے ،وہ اجلاس کے انتظامات میں منہمک تھے کچھ زیادہ بات نہ ہوسکی۔
اجلاس میں امروہہ کے ایک اوراستاذ حضرت مولانا سیدعبدالحی صاحب علیہ الرحمہ سے ملاقات ہوئی ان سے ذراتفصیل سے بات ہوئی، مولانا نے فرمایاکہ اگرتیار ہوتومیسور چلے جاؤ، میسورکے کچھ لوگ آئے ہیں وہاں ایک مدرسہ کی بنیاد پچھلے سال ڈالی گئی ہے، وہاں علم کاکوئی ماحول نہیں ہے وہاں ضرورت ہے کہ مدرسہ کیلئے ماحول تیارکیاجائے میں نے کہا کہ میں کہیں بھی جانے کیلئے تیار ہوں ،حضرت مولانارمضان شریف میں میسورجایاکرتے تھے ،وہاں ان کے تعلقات بہت تھے، تعلقات کے وہی لوگ مولانا سے ایک عالم مانگ رہے تھے ،میں نے آمادگی ظاہرکی مجھے یادآیاکہ میرے مرحوم استاد حضرت مولانا محمدیحییٰ صاحب نوراللہ مرقدہ کبھی کبھی فرماتے تھے ،کہ میسور ضرورجاناوہاں کی آب وہوا بہت اچھی ہے، مجھے خوشی محسوس ہورہی تھی کہ شاید استاذ مرحوم کے ارشادکی تکمیل ہوجائے گی۔
مولانا نے ان حضرات سے بات کرلی ،میسور کے لوگوں نے کہا کہ واپسی کے بعد ہم لوگ باضابطہ دعوت نامہ اورکرایہ بھیجیں گے،تب بھیجئے گا، مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ تھوڑاسا