غرق ہوگیا ۔ چند دنوں میں دونوں کتابیں پڑھ لیں ، پھر دونوں نے مجھے اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا کہ قرآن کریم کی تلاوت کے بعد انھیں دونوں کتابوں میں محورہتا۔ اسی میں رمضان کا مبارک مہینہ آگیا ، اور ان دونوں کے اثر نے دنیا کے رہے سہے نقوش بھی دل سے مٹادئے، اخیر عشرہ میں اعتکاف کا منصوبہ بنایا ، لیکن کس مسجد میں اعتکاف کروں ؟ اس سوال پر کئی دن الجھا رہا ، جس مسجد میں مَیں پنجوقتہ نمازیں پڑھا کرتا تھا ، اس میں تنہائی نصیب نہ ہوتی ، کیونکہ اس وقت وہ عبادت گزاروں سے ہمہ وقت معمور رہتی تھی ، اور میرا دل تنہائی چاہتاتھا، گاؤں کے پچھم محلہ میں ٹونس ندی کے کنارے ، آبادے سے قدرے ہٹ کر ایک چھوٹی سی مسجد تھی جسے گھریلو زبان میں ’’ اونچکی مسجد ‘‘ یعنی اونچی مسجد کہا جاتا تھا ، اس وقت اس میں آبادی سے قدرے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے گنے چنے مصلی آتے تھے ، اور صرف نماز کے اوقات میں آتے تھے ، باقی ہمہ وقت وہ سنسان رہتی تھی ، ندی کے کنارے سناٹے میں ہونے کی وجہ سے کچھ غیر مرئی روایتیں بھی اس کی طرف منسوب تھیں ، اس میں کسی کو اعتکاف کی ہمت نہ ہوتی تھی ، میں نے اپنے اعتکاف کے لئے اسی کو منتخب کیا، میرے خاص لوگوں نے منع بھی کیا ، مگر میں مصر رہا ، بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ میرے گھر سے خاصے فاصلے پر ہے ، افطار کا مسئلہ تو آسان تھا ، دن کا وقت ہوتا ، کوئی نہ کوئی لے کر پہونچ جاتا۔ نانیہال قریب ہے، وہاں سے افطار کا انتظام ہوجاتا ، لیکن سحری کا مسئلہ کیونکر حل ہوتا ، مگر مجھے اصرار تھا کہ تنہائی اس مسجد کے علاوہ اور کہیں نہ ملے گی ، اس لئے میں بہرحال وہیں اعتکاف کروں گا ، لیکن یہ سوال ہنوز لاینحل تھا کہ سحری کون پہونچائے گا ، میں والد صاحب کو تکلیف نہیں دے سکتا تھا ، چھوٹا بھائی سات آٹھ سال کا تھا ، اس کے بس کا کام نہ تھا ، لیکن حق تعالیٰ نے پہلے ہی سے انتظام کررکھا تھا ، گاؤں کے چند بچے مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور میں زیر تعلیم تھے ۔ عبد الغفار، عطاء الحق ، خیر البشریہ شعبان ورمضان کی تعطیل میں گھر آئے تو ارزاہ شوق مجھ سے کچھ کتابیں پڑھنے لگے ، یہ سلسلہ رمضان میں بھی چلتا رہا، حالانکہ یہ سب اس مسجد سے خاصے فاصلے پر رہنے