لگی ، میری اہلیہ تین بہنیں ہیں ، دوبڑی بہنوں کا نکاح ایک ساتھ ہواتھا ، تیسری بہن کی نسبت طے تھی ، مگر ابھی عقد نکاح نہ ہواتھا، سسرال کی جانب سے تحریک تھی کہ تینوں کی بارات ساتھ میں آئے ، جس کا نکاح نہیں ہوا ہے ، اس کا صرف نکاح ہوجائے ،اور دو کی رخصتی ہوجائے ۔ تیاریاں گفتگو کی حد تک شروع ہوگئی تھیں ۔ میرے نانا مرحوم شادی بیاہ کے معاملات میں گاؤں کے چودھری تھے ، اس مسئلہ میں ان سے مشورہ ضرور لیا جاتاتھا۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے تو نہیں تھے مگر وجاہت اور رعب داب میں ممتاز تھے ۔ گاؤں میں ان کا بڑا لحاظ تھا ، وہ گھر پر تشریف لائے اور والد صاحب سے اس موضوع پر گفتگو کرنے لگے ، کتنے باراتی جائیں گے ؟ کون کون ہوں گے؟ بارات کے لوازم کو کس کس طرح برتا جائے گا وغیرہ؟ اس طرح کے معاملات میں لڑکوں کو دخل دینے اوربولنے کی گنجائش نہ تھی ، میں ایک طرف بیٹھا سن رہاتھا ، میں سوچ رہاتھا کہ معاملہ میں اصل میں ہوں ، اور علم دین کی تکمیل کرکے فارغ التحصیل ہوچکا ہوں ، اور بارات میں بہت سی غیر شرعی رسمیں ہوتی ہیں ، لیکن معاشرہ کی ریت یہ ہے کہ صاحب معاملہ کچھ نہ بولے ، اسی لئے نانا کا خطاب میری طرف سرے سے ہے ہی نہیں ، میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ۔ پھر دل نے فیصلہ کیا جو کچھ بھی ہو ، مجھے خاموش نہیں رہنا چاہئے ، میں نے سر جھکاکر ڈرتے ڈرتے نانا سے پوچھا کس کی بارات کی بات ہورہی ہے؟ نانا جھٹک کر بولے تمہاری بارات کی ! میں نے اپنے اسی ڈر کے لہجے میں سر جھکائے عرض کیا کہ آپ لوگوں نے مجھے علم دین پڑھایا ہے ، اس کا مقصد یہ ہے کہ دین پر عمل کیا جائے۔ میں فقہ اور حدیث دونوں طرح کی کتابیں پڑھ چکا ہوں ، ان میں نکاح کا تذکرہ تو ہے مگر بارات کا ذکر کہیں نہیں ہے، اس کا کوئی تعلق شریعت وسنت سے نہیں ہے ، اس لئے بارات میں مَیں نہیں جاؤں گا ، اس کے بعد آپ کو اختیار ہے ۔ میری معروضات سن کر ابتداء ً تو نانا کو جلال آیا مگر دیندار تھے ، ٹھنڈے ہوگئے ، والد صاحب بھی خاموش رہ گئے، مشورہ بکھر گیا۔ دوسرے دن سسرال پیغام بھیج دیا گیا کہ محض رخصتی ہوگی ، بارات نہیں جائے گی ، میرے خسر بھی دیندار