پھر اٹھے اور اندر جاکر اپنے تصنیف کردہ چند رسائل لے آئے ، جن میں ’’ کشکول باطن ‘‘ خوب یاد ہے ، اور بڑی محبت سے عنایت فرمایا ۔
بنگلہ دیش کا اس وقت ہنگامہ چل رہاتھا ، بنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہ وہاں تشریف لے گئے ، وہاں کے وہ مسّلم پیر ومرشد تھے ، جانے کے کچھ ہی دنوں کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کا جنازہ شرکاء کی تعداد کے اعتبار سے اب تک کا دنیا کا عظیم ترین جنازہ تھا ، اخباروں نے خبر دی کہ ان کے جنازے میں چوبیس لاکھ کا مجمع تھا۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے ، آج بھی ان کا تصور آتا ہے تو دل پر محبت کی موج نسیم چلنے لگتی ہے۔
مولانا عبد الباطن صاحب کے یہاں سے اٹھے تو ایک مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی ، مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر وہیں ایک جوان عالم سے ملاقات ہوئی ، ان کا نام اب یاد نہیں ہے ، ان سے گفتگو ہوئی ، اس قدر شیریں اور فصیح وشستہ گفتگوکررہے تھے کہ مجھے بار بار حافظ شبیر احمد صاحب یاد آرہے تھے ، میں انھیں چھیڑتا تھا کہ ان کی دلنواز گفتگو کا سلسلہ دراز ہو ، ان کی گفتگو کااتنا حصہ یاد ہے کہ وہ ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کا ذکر کررہے تھے ، اور شاید یہ فرما رہے تھے کہ ہندوؤ ں میں تبلیغ اسلام کا کام نہیں ہوا ، ورنہ یہاں آج ہندوؤں کی اکثریت نہ ہوتی ، میں نے عرض کیا تھا کہ جن قوموں کے پاس کوئی قدیم مذہب ، قدیم کتاب اور تہذیب وتمدن کا سرمایہ ہوتا ہے ، ان کااسلام کی طرف آنا عادۃً مشکل ہوتا ہے ۔ اہل عرب کے پاس اور بعض دوسری قوموں کے پاس آسمانی مذہبی کتاب نہ تھی ، انھوں نے تو بہت جلد اسلام قبول کرلیا ، اور جن کے پاس کتاب اور مذہب رہا ہے وہ بمشکل اور کم تعداد میں داخل اسلام ہوئے ۔ مدینہ میں یہود بکثرت موجود تھے ، اور ان کے سامنے حضور اکرم ا کی معجزانہ شخصیت موجود تھی ، مگر گنتی کے چند لوگ اسلام لے آئے ، اوس وخزرج کسی مذہب وکتاب کے خزانہ دارنہ تھے ،تو سب ایمان لائے ، معاملہ توفیق الٰہی پر منحصر ہے ، مگر اسباب کی ناگزیری سے انکار بھی ممکن نہیں ہے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی قدس سرہ کی خدمت میں ان کے ایک