کے محلے ملا ٹولہ میں حاضری کا قصد کیا ۔ معلوم ہواتھا کہ حضرت مولانا کرامت علی صاحب علیہ الرحمہ کے پوتے ،حضرت مولانا عبد الاول صاحب کے صاحبزادۂ گرامی قدر حضرت مولاناعبدا لباطن صاحب آج کل یہیں تشریف فرماہیں ، حضرت مولانا کرامت علی صاحب ؒ کے حالات سے اور ان کی بعض کتابوں سے واقف تھا ،مولانا عبد الاول صاحب ؒ کے بھی بعض رسائل پڑھ چکا تھا ، اس خاندان کی عظمت وعقیدت دل میں بسی ہوئی تھی ، کچھ رفقاء مل گئے ، ان کے ساتھ مولانا کے دولت خانے پر حاضری دی ، حضرت مولانا کی زیارت ہوئی ، سلام ومصافحہ کی سعادت حاصل ہوئی ،تو ایسا محسوس ہوا جیسے گرم تپتی ہوئی زمین ، آگ برساتی ہوئی دھوپ اور فضا کو جھلساتی ہوئی لو سے نکل کر کسی گھنے اور ہرے بھرے باغ کے ٹھنڈے سائے میں آگیا ہوں ، جہاں ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے ، اور ہر طرف خوشبو پھوٹی پڑ رہی ہے ، دل کو ایسا سکون اور روح کو ایسا اطمینا ن حاصل ہوا جیسے میں اپنی دنیا سے الگ کسی اور عالم میں پہونچ گیاہوں ۔ایک روشن نورانی چہرہ جس سے کرنیں پھوٹ رہی تھیں ، سفید بال جیسے رحمت کی پھوار برس رہی ہو ، نحیف وناتواں بوڑھا جسم جیسے روئی کے سفید گالے نے انسانی جسم کا روپ دھارلیا ہو ، سلام ومصافحے کے بعد کانپتے پیروں سے اٹھے اور اندر تشریف لے گئے ، اور تھوڑی دیر کے بعد بہ نفس نفیس اپنے ہاتھوں میں ایک خوبصورت ٹرے لے کر آئے جس میں میزبانی کے نفیس لوازم تھے ، اور اس محبت وشفقت سے انھیں کھانے کا حکم دیا کہ ایک لمحے کو احساس ہوا کہ ہم کوبھی کسی عزت وتکریم کا استحقاق ہے ، میں نے ان سے کچھ عرض کرنا چاہا ،تو فرمایا کہ میں بہرہ ہوں ، میرے کان میں اذان دیں گے تب بھی مشکل سے سنوں گا ، اس لئے آپ زحمت میں نہ پڑیں ، مجھی کو کچھ کہنے دیجئے ، آپ صرف سنیں ، پھر انھوں نے وہ عمدہ عمدہ نصیحتیں اس محبت سے کیں کہ طبیعت کی ساری بے کیفی ختم ہوگئی ، بولتے کیا تھے منہ سے پھول جھڑتے تھے ، طبیعت بے حد متاثر ہوئی ، پھر گھرمیں تشریف لے گئے اور چائے لے کر آئے ، گرم گرم ،خوشبو سے معمور !چائے پلاتے رہے اور سامعہ کو نوازتے رہے ،