نہیں ،میں اٹھااوربے جان قدموں سے چلتاہوا سڑک پرآگیا بس آئی اس پر سوارہوااوربستی نظام الدین تبلیغی مرکز میں آگیا، مجھے یوں لگ رہاتھا جیسے مجھ سمیت وہ ساری دنیا جس میں مَیں سانس لے رہاہوں خدا سے غافل خودغرض پڑی ہوئی ہے، اورخود غرضی کی سزامیں اسے خود فراموشی کا عذاب بھگتنا پڑرہا ہے، میں نے یہ سوچاتھاکہ تبلیغی مرکز میں چلوں یہ لوگ خداکانام بہت لیتے ہیں ،دیکھوں ان میں خداکی بندگی کس طور پر ہے،جوکچھ پڑھاتھا، قرآن میں ،حدیث میں ،بزرگوں کے حالات میں ،نبی کی سیرت میں ،صحابہ کی زندگی میں ، وہ سب یاد تھا میں اسے تلاش کررہاتھا ،میرے اندر تو اس کاشائبہ نہ تھا ،اپنے سے باہر اسے دیکھنا چاہ رہاتھا،جمعیۃ کے آفس میں مجھے وہ چیز نہیں ملی ، جماعت اسلامی کے افراد سے کوئی امید نہ تھی، مدارس میں ایک آفت سے دوچار ہوچکاتھا ، جماعت تبلیغ کی قدردل میں تھی،مگر عملاً اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی، آج اسی کی تلاش میں وہاں گیا،تقریریں سنیں ،چہل پہل دیکھی مگر دل کو آسودگی نہ ملی، ایک پرانے مدرس مولانا محمد الیاس صاحب بارہ بنکوی سے ملاقات ہوئی، بہت سیدھے سادے ،معصوم صفت!ان سے کچھ سوالات کئے،تووہ ایک خاص وقت میں حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب کی خدمت میں لے گئے وہ بہت خاموش بزرگ تھے،ان سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی، مگر دل متأثر بھی نہیں ہوا، ایک روزرہ کر وہاں سے واپس آگیا، پھر آکر روتارہا،رولیتاتوطبیعت ہلکی ہوجاتی،پھر سوچتے سوچتے طبیعت بوجھل ہوجاتی پھر روتا،دوروز کے بعد پھر مرکز گیا، کیونکہ مولانا الیاس صاحب نے فرمایاتھا کہ اس کام میں لگ کردیکھو، اب کی لگنے کے ارادے سے گیا، مولانا سے ملاقات ہوئی، ہمارے اعظم گڑھ کے ایک نوجوان بزرگ مولانا عزیر صاحب سے ملاقات ہوئی ،مولانا عزیر صاحب پھولوں سے بنے انسان تھے، پھول کی طرح خوشبودار، بولتے تو منھ سے پھول جھڑتے، اوردل کو چھولیتے، انھوں نے بہت زوردیا کہ جماعت میں نکل جاؤ، میں نے کہاکہ مجھے ادھر ادھر جانے سے مناسبت نہیں ہے لیکن آپ کا حکم نہیں ٹال