تصنیف سیرت سید احمدشہیدؒ نکال لایا،یہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن تھا ایک جلد میں ! بعدمیں مولانا نے اس میں بہت اضافہ کیا اب وہ دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ،میں نے وہ کتاب پڑھی،تودل پر شدیداثرہوا کچھ توحالات کازخم خوردہ تھا کچھ اللہ والے کی یہ موثر داستان! اس قدر تاثر ہواکہ میرادل امنڈپڑا اورآنکھوں کے راستے دریابہہ گیا، اس وقت کی کیفیت یہ تھی کہ لحاف میں منھ ڈھک لیتا اورروتے روتے لحاف بھگو دیتا، سید احمدشہیدؒ کے حالات نے میری طبیعت کا دھارا کلیۃً دین اورآخرت کی طرف موڑدیا،دینی اوراخروی ذوق مجھے ابتدا ئے شعور سے تھا،بچپن ہی میں حدیث کی بہت سی کتابیں جواردومیں آگئی تھیں میں نے پڑھ لی تھیں ، سیرت پاک جناب رسول اللہ اسے مجھے عشق تھا،غرض طبیعت کارجحان بچپن سے ادھر ہی تھا، بعدمیں ہنگامی حالات ،صحبت بد کے برے اثرات اور بقول سعدی ’’درایام جوانی چنانکہ افتدوانی‘‘ وغیرہ احوال نے دل کو زنگ آلودبنادیاتھا،اسٹرائیک کے ہنگامے سے دل پر جو چوٹ لگی تھی اس نے اس زنگ کو ڈھیلاکر دیا،پھر سید صاحب کے پاکیزہ حالات نے زنگ کی تہوں کواتاردیا، آنکھیں جو برسیں تو ساری کدورتیں بہہ گئیں ،اب دل کا رنگ کچھ اورہی تھا، کاروبار دنیاسے دل سرد ہوگیا، ایک دن مسجد عبدالنبی(دفتر جمعیۃ علماء ہند) میں بیٹھا قرآن کریم کی تلاوت کررہا، ایک محویت اورمستی کی کیفیت تھی ،سورہ انفطار شروع ہوئی، جب اس آیت یَااَیُّھَاالْاِنْسَانُ مَاغَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ۔ پر پہونچا تو میں ایک دم سے چونک پڑا،ایسا محسو س ہواکہ جیسے حق تعالیٰ مجھے ہی ڈانٹ رہے ہوں کہ تم کس دھوکے میں پڑکر خداسے غافل ہورہے ہو، آخر تمھاراسرمایہ کیا ہے؟ پیدااُنھیں نے کیا،انھیں نے سب اعضاء وجوارح ہوش وگوش، عقل وذہانت اوردل ودماغ کودرست کیا،اورانھیں نے جس صورت میں چاہا تمھیں ڈھال دیا، پھر جب سب انھیں کی طرف سے ہے توکیوں انھیں بھول رہے ہو، یہاں پہونچ کر تلاوت رک گئی اورمیں سوچ کے سمندر میں غرق ہوگیا، جب دیر کے بعد افاقہ ہواتو سخت تھکن محسوس ہورہی تھی، ایسامحسوس ہورہاتھا کہ بدن میں جان