خود آؤں ، یہ پروگرام بناکر رقم میں نے اپنے نزدیک بکس میں حفاظت سے رکھ دیا۔
ایک ہفتہ کے بعدمجھے کسی ضرورت سے اس رقم کو نکالنے کی نوبت آئی، دیکھا تو وہ غائب تھی میں بہت پریشان ہوا،رقم میری حیثیت سے اچھی خاصی تھی، اوردوسرے کی امانت تھی، اب کیاہوگا؟ کسی پر شبہ کی بھی گنجائش نہ تھی، اوراسے نظرانداز کردینے کی بھی وسعت نہ تھی، پوچھ گچھ کی گئی مگر کچھ پتہ نہ چلا،شفیق نے کہاکہ فلاں جگہ ایک عامل رہتے ہیں ، چلوان سے کہاجائے ،میراجی تونہ چاہتاتھا مگر گھبراہٹ مجھے لے گئی، ان سے صورت حال بتائی، انھوں نے کہا جن لوگوں پر شبہ ہو یاجولوگ کمرے میں رہتے ہوں ان کے نام کا پہلا حرف لکھ کر دے دو،مجھے کسی پر شبہ نہ تھا ،کمرے میں ۷؍لڑکے تھے میں نے ہر ایک کے نام کا پہلا حرف لکھ کر دے دیا، اس نے کہاکل صبح آنا میں بتادوں گا۔
صبح ہم لوگ گئے تووہ اس کاغذ کو لے کر آیا،جس پر ہم نے ہرایک کے نام کا پہلاحرف لکھ رکھا تھا، اس نے ’’ش‘‘پر نشان بنایاتھا،کہاجس کے نام کے شروع میں شین ہے وہی چورہے،آپ اپنے طور پرمعلوم کرلیجئے،یہ رام پور کا ایک لڑکا تھا اس کا نام شفیق احمد تھا۔
یہ وہ شفیق نہیں تھا جو تجارت کا شریک تھا وہ دوسرے کمرے میں رہتاتھا، وہ مرادآبادکارہنے والاتھا۔شفیق رام پوری کی ایک داستان ہے،کچھ مضائقہ نہیں اگر اسے قدرے اختصار کے ساتھ بیان کردوں ۔
ضلع رام پور میں ایک قصبہ ہے ٹانڈہ بادلی، شفیق وہاں کارہنے والاتھا اوربہت خوبصورت ، طرحدار اورسجیلانوجوان تھا،لمباقد،خوب بھراہوابدن، دارالعلوم دیوبند کا طالب علم تھا،نائب مہتمم صاحب کا خادم خاص تھا ان کا بہت مقرب ! مزاج اورعادت کے لحاظ سے بگڑاہوا، اسٹرائیک کے ہنگامے کے بعد جب مدرسہ کھلا تو وہ بھاگ کر بمبئی چلاگیا،وہاں کسی فلمی ادارے میں پہونچ گیا اور اداکاروں کے زمرے میں شامل ہوگیا، نائب صاحب بہت پریشان ہوئے ،کسی طرح پتہ چلاکہ وہ بمبئی میں ہے، تواس کے والد بمبئی جاکراس گندگی سے نکال لائے لیکن اس کی اس موضوع پر شہرت ہوچکی تھی ،دارالعلوم میں داخلہ اب مشکل تھا تو