چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے ،مجھے دیکھ کرایک نے دوسرے بچے سے اپنی زبان میں پوچھا، انھیں پہچانتے ہو؟دوسرے نے کہاہاں یہ دیوبند پڑھتے تھے وہاں جھگڑاکیا، تو نکال دیئے گئے،پہلے نے کہااگر جھگڑا نہ کئے ہوتے تو نہ نکالے گئے ہوتے ،یہ بات سننی تھی کہ میری آنکھوں سے آنسو ابل پڑے،دل توزخمی تھا ہی،خون نکلناچاہئے تھالیکن وہ خون ہی تو ہوتاہے جو پانی بن کر آنکھوں کی راہ سے بہتاہے ،توبہ کرتا رہااورعزم کرتارہا کہ اب کبھی جھگڑانہ کروں گا، اورقدم آگے بڑھتے رہے نہ آنسو رکے اورنہ قدم ٹھہرے، محمدآباد پہونچا تومیرے بزرگ حاجی محمدطاہر صاحب مرحوم جو دورکے رشتے سے میرے خالو ہوتے تھے ہنگامے کے بعد گھر رہنے کے دوران دوہی تین بزرگ تھے، جو حقیقت میں میرے ساتھ محبت اورہمدردی کابرتاؤ کرتے تھے، ان میں حاجی محمدطاہرصاحب بھی تھے بلکہ یہ میرے اوپر غیر معمولی شفقت رکھتے تھے وہ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے میں نے انھیں سلام کیا انھوں نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟ میں نے بتایاکہ سرائمیر مدرسۃ الاصلاح میں پڑھ رہاہوں ، انھو ں نے انتہائی شفقت کے لہجے میں کہا ہاں بیٹاجاؤپڑھو! اس جملے پر پھر آنکھیں ابل پڑیں ،دل کا زخم چمک اٹھا، دل کازخم لئے ہوئے میں مدرسہ میں حاضر ہوگیاشام ہوگئی تھی ،پہونچتے ہی میں نے مولوی طاہر حسین صاحب کے متعلق پوچھا معلوم ہواکہ وہ آپ کو گھر پہونچاکرآئے اوردوسرے دن دیوبند چلے گئے،یہ سنتے ہی میری طبیعت کے قدم بھی اکھڑگئے میں نے بھی دل میں طے کرلیا کہ کل دہر ہ ایکسپریس سے چلاجاؤں ، اس وقت دارالاقامہ کے نگراں جو صاحب تھے انھیں میں نے درخواست دی، ناظم صاحب موجود نہ تھے اورجیب کو دیکھاتودیوبند تک کرایہ میں پانچ روپئے کی کمی تھی، ایک طالب علم نے مجھے وہ بطور قرض دئیے،میں دوسرے دن صبح شاہ گنج پہونچ گیا اوردیوبند کاٹکٹ لینے کے بعد میرے پاس پچاس پیسے بچ رہے ،ڈیڑھ بجے گاڑی آئی اورمیں اس پر بیٹھ گیا، اورجانے راستے میں کہاں رکایاکیابات ہوئی میں دوسرے دن رات کوبارہ بجے دیوبند اسٹیشن پر اترا، ابھی پچاس پیسے میری جیب میں تھے، ہلکی ٹھنڈک شروع ہوگئی تھی ایک رکشے پربیٹھا اورسیدھے