کا قیام تھا ، زیادہ تر میرے ساتھی ہی تھے اور میرے علاقے کے! میں نے کہا کہ جب کسی قوم پر زوال وادبار طاری ہوتا ہے تو کام کے وقت اسے کھیل سوجھتا ہے ، یہ سن کر کئی طلبہ میرے اوپر خفا ہوگئے ، اتنے خفا ہوئے کہ الامان والحفیظ ۔ میں نے حتی الامکان قائل کرنے کی کوشش کی ، مگر میری آواز ہلکی پڑ گئی ، میں بہت مایوس ہوا۔ مجھے اس سے شدید جھٹکا لگا ، میں سوچتا رہا کہ دار العلوم ایک مقدس تعلیمی ادارہ ہے ، جہاں حضرت تھانویؒ، حضرت کشمیریؒ، حضرت مدنیؒ، حضرت مفتی اعظم دہلویؒ جیسے اکابر نے علم حاصل کیا اور آفتاب وماہتاب بنے ، اب اسی دار العلوم میں بجائے علم وفضل کے کھیل تماشوں کے مظاہرے ہورہے ہیں ، اور حالات کی سنگینی اس حد تک پہونچ چکی ہے کہ اسے اچھا بلکہ ضروری قرار دیا جارہا ہے ، ان حالات میں مَیں شکستہ دل بھی ہورہا تھا اور کام کے منصوبے بھی بنارہا تھا۔
ایک روز اپنے ایک دربھنگوی دوست مولوی ابرار صاحب( اب یہ مولانا ابرار احمد صاحب مدظلہ جامع مسجد باقر گنج لہیریا سرائے ضلع دربھنگہ کے امام وخطیب ہیں ) سے میں نے اس افسوسناک صورت حال کا تذکرہ کیا ، مولوی صاحب موصوف مولانا وحید الزماں صاحب کے یہاں صف ثانوی میں میرے ہم درس تھے ، وہ کئی سال سے دار العلوم میں تھے ، اور یہاں کے حالات سے خوب واقف تھے، انھوں نے میری تائید کی ، لیکن یہ بھی بتایا کہ اس سمندر میں موتی اور جواہر بھی ہیں ، کسی دن ۱۲؍ بجے رات میں آپ تیار ہوں تو میں تنہائیوں میں یکسو ہوکر پڑھنے والوں سے آپ کی ملاقات کراؤں ۔ میں نے کہا ضرور! چنانچہ ایک دن طے ہوگیا ، وہ مجھے بارہ بجے ساتھ لے کر چلے ، اولاً دار العلوم کے مختلف چھوٹے چھوٹے حجروں میں لے گئے، ہر حجرے میں مَیں نے دیکھا کہ ایک یادو طالب علم دنیا ومافیہا سے بے خبر کتابوں میں منہمک ہیں ، کسی نے توجہ کی تو اس کے پاس کچھ دیر بیٹھ گئے ، اور اپنی کتاب سے اگر کسی نے سر نہیں اٹھایا، تو ہم خاموشی سے وہاں سے چلے آئے ، صبح صادق ہونے کو تھی ، مولوی ابراراس وقت مجھے ایک مسجد میں لے گئے ، اس کے حجرے میں بجلی کا چراغ روشن تھا ، دروازہ بھڑا ہوا تھا ، مولوی ابرار نے زور دار آواز میں السلام علیکم کی صدا لگائی۔ دوسری