ہو، اسے کھڑے ہوکر عربی میں بیان کریں ، اس وقت تقریباً سبھی طلبہ چند روز آگے پیچھے اپنے اپنے گھروں سے تازہ وارد ہوئے تھے ، جدید ذرا پہلے اورقدیم تو بالکل تازہ! مگر درس گاہ سناٹے میں آگئی ، ہر زبان خاموش !نگاہیں ، البتہ ایک دوسرے کو چوری چوری دیکھ رہی تھیں ، مولانا ترغیبی اور تشجیعی کلمات صادر فرمارہے تھے ، مگر دل سب کے ڈگمگا رہے تھے ، کئی منٹ تک مجلس سنسان رہی ، صرف مولانا کی آواز کان میں آرہی تھی ، اور وہ بھی اس طرح جیسے کوئی بہت دور سے صدا لگارہا ہو، جس سے ایک چونک سی پیدا ہوتی ہے ، لیکن جواب کے لئے لب نہیں ہلتے۔
میں نے دیکھا کہ دیر ہورہی ہے ، اور کوئی جواب نہیں مل رہا ہے، مجھے اندیشہ ہواکہ مولانا کی مسکراہٹ کہیں رنگ جلال میں نہ ڈھل جائے ، میں یک بیک کھڑا ہوگیا ، مولانا نے فرمایا ہاں فرمائیے۔میں ساتھیوں میں اجنبی تھا ، سب حیرت سے دیکھنے لگے کہ یہ کون دیوانہ ہے، دبلا پتلا ،گلے سے بوسیدہ سا رومال لپیٹے ہوئے ، مئو کی کشتی نما ٹوپی سر پر رکھے ہوئے ، چہرے بشرے پر ذہانت وفطانت کا ذرا بھی اثر نہیں ، سب تک رہے تھے اور میں ؎
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
کا وظیفہ پڑھتا ہوا خطبہ پڑھنے لگا ، پھر سہارن پور کے سفر کی روداد عربی میں سنائی۔ اس وقت کیا بیان کیا، اور کس انداز میں بیان کیا ، اب کیا یاد، بس اتنا یاد ہے، کہ مولانا کے فطری رعب اور طلبہ کے تیر نگاہ نے ہوش وحواس میں ہنگامہ بپا کررکھا تھا ، کیا سوچتا رہا ، کیا بولتا رہا، فرشتوں کے اعمالنامے میں محفوظ ہوگا ، میرا حافظہ تو اس وقت بھی مفلوج ہورہا تھا، اب مدتوں کے بعد اسے کوئی لفظ کاہے کو یاد رہے گا، لیکن ایک جملہ یاد رہ گیا ہے ، جس پر طلبہ نے ایک زوردار قہقہہ لگایا تھا ، اور مولانا نے اس سے زیادہ زوردار لہجہ میں انھیں ڈانٹاتھا۔ داستانِ سفر ختم کرتے ہوئے میرے منہ سے نکلا ’’ رجعت منھا وقت الشام ‘‘ میں شام کے وقت وہاں سے واپس آیا۔ اس وقت الشام پر ایک زوردار قہقہہ لگا، میں بوکھلا گیا ، مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ ستم ظریف کیوں ہنس رہے ہیں ، لیکن اسی لمحے مولانا کی رُعب دار آواز گونجی