پڑھنا تومتعین ہے ، کیاپڑھناہے اس میں ترددتھا، یہ بات میں پچھلے اوراق میں کہیں لکھ چکاہوں ، اس وقت میں نے ایک خواب دیکھا تھا،میں نے دیکھا کہ میں حج کرنے گیاہوں اورایک ایسی عمارت میں پہونچاہوں جس کا صحن چوکورہے اوربہت وسیع ہے،اس کے چاروں طرف عمارتیں بنی ہوئی ہیں میں بہت خوش تھا کہ میں مکہ مکرمہ آگیاہوں ، بس اتنے ہی میں میری آنکھ کھل گئی ،خواب ذہن سے نکل گیا اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد ایک جلسہ کی تقریب سے میراجانا مبارک پور ہوا،مدرسہ میں پہونچا توبعینہ وہی نقشہ تھا جو میں نے چند روزپہلے خواب میں دیکھا تھا اس وقت تک ابھی احیاء العلوم میں داخلہ کی بات میں نے سوچی نہ تھی ،ممکن ہے والد صاحب کے ذہن میں رہی ہو،پھر سال ڈیڑھ سال کے بعد وہاں میراداخلہ ہوا،توخیال ہوا کہ علم دین کی زیارت یہیں مقدرہے، ابتداء ً بچپن کی وجہ سے طبیعت بہت گھبرائی مگر ایساکبھی نہ ہواکہ گھبراکر بھاگ جانے کو یاگھر چلے جانے کو جی چاہاہو، پھر توایسی محبت اوردلبستگی ہوئی کہ مدرسہ سے نکلنے کوجی نہ چاہتاتھا، یہی گھر دوار بن گیا،یہاں کے دروبام سے ایسا تعلق ہوگیاکہ گویایہ مدرسہ روح وزندگی میں داخل ہوگیا،اس کے بغیر میرے وجود کا تصور نہیں ، یہاں کے اساتذہ سے طلبہ سے، یہاں کے اسٹاف سے ، سب سے ایسا تعلق ہواجیسے سب گھر کے ممبران ہوں ۔
یہیں شعورکی آنکھ کھلی ،یہیں اس میں پختگی آئی، اوریہاں جومزاج بن گیا اس کی چھاپ اب بھی باقی ہے، مدرسے کا جب تصورآتاہے تو لوح ذہن پر پہلے یہی مدرسہ ابھرتا ہے،ابھی کچھ عرصہ پہلے تک میں خواب میں جب بھی اپنے کو پڑھاتے یاپڑھتے دیکھتاتواسی مدرسے میں دیکھتا، اللہ تعالیٰ اس مدرسہ کو اس کے اساتذہ وطلبہ اوراہل انتظام کو اپنی رحمتوں ، مہربانیوں سے نوازیں ۔آمین
٭٭٭٭٭