دوسرے کوبتائی پھر تیسرے ،چوتھے کو، توان سب نے تو ایک ایک بارسنا، اورتمھیں بکثرت دہرانے کی وجہ سے خوب یاد ہوگئی، اورعلم کی جوبات یاد ہوجاتی ہے پھر اس سے مزید شاخیں ذہن نکالتاہے اورعلم بڑھتاچلاجاتاہے میں نے اسی وقت سے اس بات کو گرہ میں باندھ لیاتھا،میں کسی پوچھنے والے سے نہ چیں بچیں ہوتا نہ اکتاتا نہ گھبراتا،بلکہ ایک ہی سوال اگر کوئی بار بار کرتا یاکئی لوگ باری باری ایک ہی سوال دہراتے، تو بھی مجھے اکتاہٹ نہ ہوتی،بلکہ پورے انشراح اورتفصیل سے بتاتا اس سے مجھے بہت فوائد حاصل ہوئے،ایک فائدہ یہ ہوتا کہ وہ بات اچھی طرح یاد ہوجاتی دوسرایہ کہ سمجھانے کے نئے نئے اسلوب ذہن میں آتے، تیسرے یہ کہ ذہن میں وہ بات محفوط رہتی، تو بہت کچھ اس پر غور کرنے کا موقع ملتااوراس سے نئی نئی باتیں سمجھ میں آتیں ،چوتھا یہ کہ طلبہ میں محبوبیت حاصل ہوتی،اعتماد پیدا ہوتا اورآخر میں یہ کہ اساتذہ کی پسندیدگی حاصل ہوتی۔
اب سنئے! شرح جامی کاامتحان تھا ،فجر کی نماز کے بعد میں شرح جامی کے خاص خاص امتحانی مقامات دیکھناچاہتاتھا کہ ایک طالب علم آیا اس نے ایک سوال کیا ،میں نے پورے اطمینان سے اسے سمجھایا،پھر دوسراوہی سوال لایا،پھر تیسرا،پھر چوتھا،سب یکے بعددیگرے آتے گئے، اورمیں ہرایک کو یکساں تفصیل وانشراح سے سمجھاتارہا، اتنے میں امتحان کی گھنٹی ہوگئی، جب امتحان ہال میں داخلہ ہوا اورپرچۂ سوالات ہاتھ میں آیاتودوسرے سوالات کے ساتھ وہ سوال بھی تھا ،جومجھے اچھی طرح ازبر ہوگیاتھا اسی اطمینان سے میں نے سوالات کے جواب لکھے اورماشاء اللہ بہت اچھا پرچہ ہوا۔
قطبی سے سب طلبہ گھبراتے تھے،اس کا ایک سوال بہت مشکل تھا،میں نے اس کا مفصل جواب لکھا،لکھ چکنے کے بعد احساس ہواکہ میں نے الٹالکھ دیا، پھر میں نے مکرر اپنی دانست میں درست کرکے لکھا،میں نے وقت زیادہ لیا مگر اساتذہ نے میری رعایت کی، دل میں خلش تھی،میری عادت تھی کہ لکھ لینے کے بعد میں کتاب میں اس مسئلے کو دوبارہ نہیں دیکھتاتھا،مگر آج خلش تھی ،میں نے قطبی کاوہ مقام دیکھا تو معلوم ہواکہ پہلاجواب صحیح تھا