بناگئے ،جس سے مجھے بہت فائدہ ہوا، اگر میں اسی راہ پرچلتارہتاتو آج عربی کا ایک خاصا ادیب ہوتا، مگر بعد میں ایسے حالات آئے کہ میری زندگی ایک اورراہ پر مڑگئی،اس کی تفصیل میں آگے چل کر لکھوں گا۔
یہ سال بحمداللہ اچھا گزرا،کوئی خاص ناگواری پیش نہیں آئی،طالب علمی شدومد سے قائم رہی،عربی کتب کے مطالعہ کے ساتھ اردو کی معیاری کتابیں زیر مطالعہ رہیں ،خصوصیت سے علامہ شبلی وسید سلیمان ندوی علیہما الرحمۃ کی’’سیرۃ النبی‘‘ کو سال بھر پڑھتارہا،اس کے مطالعہ سے اردوادب کا بھی فائدہ ہوا،اور معلومات کی دنیا بھی روشن ہوئی۔
اسی سال مقالات شبلی کی تما م جلدیں بغور پڑھیں ،مولاناحفظ الرحمٰن صاحب مجاہد ملت کی قصص القرآن پڑھی، مولانامودودی کی کتابیں تفہیمات، تنقیحات،سیاسی کشمکش اورتفہیم القرآن کی جتنی جلدیں آچکی تھیں سب پڑھیں ، مولانا امین احسن اصلاحی کی کتابیں پڑھیں مولاناعلی میاں کی متعدد کتابیں پڑھیں ،جماعت اسلامی کالٹریچر ایک صاحب لالاکر مجھے دیتے تھے،میں نے اس کی مطبوعات کا اکثر حصہ پڑھ لیاتھا۔
امتحان سالانہ
چونکہ اس سال شروع ہی سے مطالعہ ومذاکرہ کا نظام درست تھا، اس لئے اخیر سال میں زحمت نہیں ہوئی،تکرار تمام تر میرے ہی ذمے رہا، درس کی تمام کتابیں بحمداللہ یاد ہوگئی تھیں ،ایک ایک کتاب کا تکرار مکررسہ کرر ہوگیاتھا، اس سال ایک خاص عمل کا التزام کیا ، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدصاحب مدنی علیہ الرحمۃ کے حالات میں کہیں پڑھاتھا کہ امتحان سے پہلے والی رات میں وہ پوری کتاب کا ازاول تاآخرمطالعہ کرلیاکرتے تھے ،اس سال میں نے بھی یہی معمول بنایا،جس کتاب کا جب امتحا ن ہوتا،اس سے ایک روز پہلے پوری کتاب کامطالعہ کرلینے کا منصوبہ بنایا امتحان شروع ہونے سے دوتین دن پہلے ہر کتاب کے تکرار سے فارغ ہوگیاتھا۔
امتحان کے دنوں میں بھی طلبہ بہت کچھ پوچھ پاچھ کیاکرتے تھے جس کی وجہ سے