میں رہتے تھے وہاں سے البلاغ نامی رسالہ نکالتے تھے ،اوران کی عرب وہند کے تعلقات پر کتابیں شائع ہورہی تھیں وہ وہاں سے چھٹیوں میں ماہ دوماہ کے لئے گھر تشریف لاتے تھے ،عربی کے وہ بڑے ادیب تھے ،لکھنے اوربولنے پر انھیں قدرت تھی اس سال وہ جب بمبئی سے تشریف لائے تو ہمت کرکے میں ان کی خدمت میں پہونچ گیا وہ طلبہ کو بہت عزیز رکھتے تھے،بے تکلف توتھے ہی ،طلبہ کو بہت جلد بے تکلف کرلیتے تھے ،میں شرمیلااوربزدل طالب علم تھا ،جاکر خاموش بیٹھ گیا،انھوں نے ہمت افزائی کی اورپوچھا کہ کیاکام ہے؟میں نے ڈرتے ڈرتے کہاکہ عربی ادب وانشاء کا مجھے شوق ہے میں چاہتا ہوں کہ اس سلسلے میں مجھے کوئی کتاب آپ پڑھادیں ،فرمایاکہ کیا پڑھتے ہو،میں نے عرض کیامقامات حریری !کہابس کافی ہے یہی کتاب لے کرصبح کو فجر کے بعد میرے پاس آجاؤ،میں پڑھادیاکروں گا، میں نے دل میں سوچاکہ مقامات حریری تومیں پڑھتا ہوں اسے کیا پڑھناہے مگر میں ادب کی وجہ سے خاموش رہا۔
دوسرے دن میں مقامات حریری لے کر ان کے گھر پہونچ گیا،گرمی کا موسم تھا وہ باہر چارپائی پر بیٹھے کچھ لوگوں سے باتیں کررہے تھے مجھے دیکھتے ہی یکسو ہوگئے،میں نے کتاب کی عبارت دوسطر کے بقدر پڑھی، انھوں نے لفظ لفظ کی تشریح شروع کی مادہ بتایا،پھر اس سے کون کون سے باب مشتق ہوتے ہیں ،ان کے معانی میں کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں ان سے کیا کیا اسماء مشتق ہوتے ہیں ان کے معانی، ان کے استعمالات ، پھر قدیم عربی اورجدید عربی میں معنی کے لحاظ سے کیافرق ہواہے؟ غرض ایک ایک لفظ کی اتنی تفصیل بیان کی ،جیسے قدیم وجدیدعربی لغات پر مشتمل کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں ، میں بغور سنتارہااورالفاظ ومعانی کی ایک نئی دنیا مجھ پر روشن ہوتی رہی ،دو سطر میں تقریباً آدھ پون گھنٹہ لگ گیا ،میراحافظہ اچھا تھا، وہ باتیں مجھے یاد ہوگئیں ،پھر ہر روز اسی انداز میں سبق چلتارہا قاضی صاحب کہیں چلے جاتے تو میرے سبق کا ناغہ ہوجاتا اورمجھے قلق ہوتا،یہ سلسلہ ایک ماہ سے کچھ زیادہ ہوتارہا پھر قاضی صاحب بمبئی چلے گئے،مگر میرے لئے عربی ادب کی تعلیم وتحصیل کا ایک نیا راستہ