کے ناظم دارالاقامہ مولوی احمدعلی صاحب۔۔۔۔۔جو طلبہ کے باب میں بہت سخت گیر ہیں ۔۔۔۔۔کے نام ایک خط لکھو کہ ابھی تو شیعہ سنی کے مسئلے میں اشرفیہ کے ایک طالب نے فتنہ برپاکیاتھا جس کی سزاقصبہ کے تمام بریلویوں کو بھگتنی پڑی ہے، اب ایک طالب علم نے دیوبندیوں سے بھی لڑائی ٹھان دی ہے، کیاقصبہ میں یہ باہر کے طلبہ ایک اورفساد کراناچاہتے ہیں ۔
میں نے اس مضمون کا خط بہت زوردارلہجے میں پورہ صوفی کے ایک بریلوی کی طرف سے لکھا ، صدر صاحب نے اسے لفافے میں بندکرکے مولانا احمد علی صاحب کے پاس پہنچوادیا،پھر ہم لوگ بے فکر ہوگئے اپنے معمول کے مطابق ہمارے مدرسہ کے طلبہ سمہودی تفریح کیلئے گئے ،اشرفیہ سے کوئی نہیں آیا ،وہاں کے طلبہ یہاں آتے بھی نہ تھے وہ تومناظرہ کی ضرورت سے آگئے تھے۔
خط میں شیعہ سنی فساد کا جو حوالہ دیاگیاہے ، اس کا واقعہ یہ ہواکہ پچھلے سال مبارک پور کے ایک فتنہ پرداز شخص نے ایک ذہین اورخطیب بریلوی طالب علم سیّدہاشمی کچھوچھوی کو آلۂ کار بناکر ایک رسالہ شیعوں کے خلاف’’متعہ ‘‘ کے نام سے لکھ کر شائع کیا۔ اس سے مبارک پور کے شیعوں میں کھلبلی مچی، ابھی یہ کھلبلی چل ہی رہی تھی کہ ایک اورکتابچہ’’دوشیعہ مسافر‘‘ کے نام سے شائع ہوا، اس پر شیعہ پارٹی بہت برافروختہ ہوئی ،انھوں نے جواب میں ایک جلسہ کیا، ان کا خطیب آیااور سنیوں کے خلاف زہر اگل کر چلاگیا ،اب سنیوں کو طیش آیا ،چونکہ کتاب پر بریلوی طالب علم کا نام تھا اس لئے بریلویوں نے ایک جلسہ کیا، اور اس میں خطیب یہ طالب علم تھا ،اسے خطابت کا خوب ملکہ تھا،اس نے بڑی شعلہ بارتقریر کی ،میں نے وہ تقریر نہیں سنی،جمعرات کادن تھا میں گھر گیا ہواتھا، اس تقریر کا قصبہ میں گھر گھر چرچاہوا، بہت شاباشی ملی چند ہفتوں کے بعد شیعوں نے پھر جوابی جلسہ کیا، اورشیعہ خطیب نے بہت کھل کر تبرابازی کی ،شیعوں کی تعداد مبارک پور میں بہت کم ہے، سنیوں نے سارا جلسہ بھر رکھا تھا جب اس کا تبرا شباب پر پہونچا اورخلیفہ ٔثالث حضرت امیرا لمومنین عثمان غنی ص کا نام لے