پوراباب پڑھ ڈالوں ،شایدکہیں مل جائے ،اس کے تحت ابتدائی کلمات مفردہ سب پر نگاہ دوڑائی لیکن اندھیراہی رہا،پھر سوچاکہ مفرد کی جمع جو درمیان سطرمیں لکھی رہتی ہے اس پر محنت کروں اس کے لئے لغت کی سب سے مختصر کتاب لغات جدیدہ جو حضرت مولاناسید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ کی مرتب کردہ ہے دیکھنی شروع کی، اس میں لفظ ’’ثوان‘‘ نظر آگیا،معلوم ہواکہ وہ ثانیہ کی جمع ہے جس کے معنی سکنڈ کے ہیں اب طبیعت کو انشراح ہوگیا، اس کاوش میں مجھے ڈیڑھ گھنٹے لگ گئے، آج یہ بہت معمولی بات معلوم ہوتی ہے ،مگر اس وقت یہ مسئلہ بہت اہم اورمشکل تھا۔
(۲)… اسی طرح ایک مسئلہ قطبی میں الجھ گیاتھا،میں تین دن تک اس پر غور کرتا رہا،اس وقت قطبی کی کوئی شرح اردو میں نہ تھی،عربی میں اس کا ایک حاشیہ قطبی پر تھا،اسے دیکھا مگر الجھن دور نہ ہوئی،میں سوال کرنے سے بہت شرماتا تھا ،حالانکہ یہ بات حصول علم کے راستے میں مضر ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کواتنا زبردست علم کیونکر حاصل ہوا، جواب میں آپ نے فرمایابلسان سئول وقلب عقول ، بہت پوچھنے والی زبان، اور بہت سمجھنے والی ذہانت سے !یہ بات مجھے اس وقت بھی معلوم تھی مگر طبیعت کا شرمیلاپن غالب تھا اوراب بھی غالب ہے، مجھے کچھ پوچھنے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے، اس وقت اس کی تاویل میں میں یہ سوچاکرتاتھا کہ مصنف نے اپنی حدتک سمجھاکر لکھنے کی کوشش کی ہے،پھرحاشیہ اور شرح والوں نے اسے مزید صاف کیاہے،تیسرے نمبر پر استاذنے محنت کی اور اس مقام کو حل کیا ، اتنے کے بعد بھی میں نہ سمجھوں ،توتف ہے میرے اوپر!میں الجھا رہا ، میں اس دوران استاذ سے پوچھنے نہیں گیا،تین دن کے بعد جب عاجز آگیا تب استاذ محترم حضرت مولانامحمدمسلم صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوا،میں نے مولاناکے سامنے کتاب کھولی اور مسئلہ حل ہوگیا،پھر پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہی لیکن شرماحضوری میں میں نے متعلقہ مسئلہ اورعبارت دریافت کی، مولانا نے وہی تقریر فرمادی جو ابھی میں سمجھ چکاتھا۔