زائد معلوم ہوتی، لیکن عام طلبہ کے لحاظ سے وہ بہت مفید ہوتی، چونکہ الفاظ بھی مکرر ہوتے تھے، اس لئے طلبہ کو الفاظ تک یاد ہوجاتے تھے، درس کا یہ طریقہ ذرا صبر آزما ہے مگر بہت مفید ہے۔ ایک بات کی جب تقریر ہوچکتی، تو کتاب میں اتنی عبارت کا ترجمہ کردیتے ، پھر آگے تقریر شروع کرتے ، اس طرح ہرہر مسئلہ کو الگ الگ کرکے ذہن نشین کراتے۔
مولانا کی آنکھوں میں حیا بہت تھی، وہ عموماً تمام طلبہ کے چہروں پر نگاہ نہیں ڈالتے تھے، ان کے ارد گرد تین تپائیاں ہوتیں ، سامنے کی تپائی پر دائیں اور بائیں ان کی نگاہ گھومتی رہتی، جو طلبہ دائیں اور بائیں طرف کی تپائیوں پر کتابیں رکھے بیٹھے ہوتے ان پر کبھی کبھی کوئی خاص بات ہوتی، تو نگاہ پڑتی، ورنہ وہ عموماً محروم رہتے ، میں مولانا کے بائیں طرف بالکل دیوار سے لگ کر بیٹھتا، دیوار میں ایک الماری تھی، میں درس کی کتاب تو تپائی پر رکھتا، اور غیر درسی کوئی کتاب جو اس وقت زیر مطالعہ ہوتی الماری میں کھول کر رکھ لیتا، مولانا کی پہلی تقریر میں بہت غور سے سنتا، پہلی ہی مرتبہ وہ تقریر نہ یہ کہ سمجھ میں آجاتی، بلکہ یاد بھی ہوجاتی، جب دوسری مرتبہ مولانا کی تقریر شروع ہوتی، تو میں غیر درسی کتاب کے مطالعہ میں مشغول ہوجاتا، اس طرح دو کتابوں کی خواندگی وقفے وقفے سے ہوتی رہتی، میں یہ نہیں کہہ سکتاکہ مولانا کو خبر نہیں ہوتی تھی ، لیکن یہ ہے کہ مولانا کا تحمل بہت بڑھا ہوا تھا ، اور ہم لوگ اس کا فائدہ اٹھالیا کرتے تھے۔
کافیہ صبح کے آخری گھنٹے میں تھی ، اور شرح تہذیب غالباً شام کے آخری گھنٹے میں ، گرمیوں میں مدرسہ کا وقت صرف صبح کا ہوتا، مولانا نے محسوس کیا کہ شرح تہذیب میں طلبہ کمزور ہیں ، اول تو منطق کی کتاب! منطق سے طلبہ یونہی دلچسپی کم تھی، پھر تہذیب اور اس کی شرح دونوں الجھی ہوئی تحریر! مولانا نے بجا محسوس کیا ، فرمایا کہ جب تک ایک وقت مدرسہ ہے، ظہر کے بعد عصر سے ایک گھنٹہ پہلے میرے گھر آجایا کرو، شرح تہذیب جہاں تک ہوچکی ہے، دوبارہ پڑھادوں گا، چھٹی کے وقت پڑھی ہوئی کتاب کو دوبارہ پڑھنا طلبہ کے لئے بہت گراں ہوتا ہے، مگر مولانا کے پاس ہم لوگوں کے لئے ایسی دلچسپیاں جمع تھیں ، کہ گرانی ہونا