ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
معرفت حالیہ نہ ہوتی ۔ اسی طرح توبہ کے بعد معافی سے تو اب کی معرفت حالیہ حاصل ہوئی وعلی ھذا تو اس واقعہ سے آپ کے معارف میں ترقی ہوئی کہ صورۃ تنزل ہوا اسی سلسلہ میں ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام سے کبھی حقیقی غلطی نہیں ہوئی عرض کیا کہ حضرت والا مثال میں کوئی ایسا واقعہ بیان فرمائیں جس سے اس کی توضیح ہو ۔ فرمایا کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک کافر رئیس کو سلام کی تعلیم فرما رہے تھے ایسے وقت میں حضرت عبداللہ ابن مکتوم اعمی آئے اور آ کر ہی باآواز بلند عرض کیا علمنی یا رسول اللہ مما علمک اللہ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک پر ترش روئی کے آثار پیدا ہو گئے جس کا منشاء یہ تھا کہ میں اس وقت اصول اسلام کی تعلیم کر رہا ہوں اور یہ فروع کی تعلیم چاہتا ہے اور ظاہر ہے کہ اصول مقدم ہیں فروع پر ۔ اس پر حق تعالی فرماتے ہیں عبس و تولی ، ان جاءہ الاعمی ، وما یدریک لعلہ یزکی ، او یذکر فتنفعہ الذکری ، اما من استغنی فانت لہ تصدی ۔ وما علیک الا یزکی ، و اما من جاءک یسعی، وھو یخشی ، فانت عنہ تلھی ، کلا انھا تذکرۃ فمن شاہ ذکرہ ۔ اب دیکھ لیجئے کہ یہ تعلیم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طاعت تھی یا غیر طاعت ظاہر ہے کہ طاعت تھی لیکن یہ خطاب عتاب اصول کی تقدیم فروع پر علی الاطلاق نہیں بلکہ اس مقام پر ہے جہاں دونوں کا اثر متماثل ہو باقی تعلیم فروع کا نفع یقینی ہو اور تعلیم اصول کا محتمل وہاں یہ مقدم ہے اور ظاہر ہے کہ یہاں ایسا ہی تھا ۔ اس لئے حق تعالی نے شکایت فرمائی کہ طرق تعلیم میں افضل کو چھوڑ کر غیر افضل کی طرف کیوں متوجہ ہوئے تو آپ کا عمل بھی طاعت تھا مگر دوسری طاعت اس سے اکمل تھی اس سے ثابت ہو گیا کہ انبیاء علیہم السلام کے تمام اعمال فی نفسہ نے عرض کیا کہ فی الحقیقت یہ مسئلہ خوب صاف ہو گیا ۔ پھر عرض کیا کہ وہ صحابی تو خوش ہوئے ہونگے کہ ہماری وجہ سے حق جل علی شانہ نے ایسا فرمایا ۔ کہ وہ حضرات اس پر خوش ہونے والے نہ تھے ان حضرات کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اس قدر تعلق اور محبت تھی کہ ایسے موقع پر