ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
ہوئی آخر تم لوگ ایسے بے فکرے کیوں ہو کہ بدون سوچے سمجھے اور بدون فکر کئے ہوئے جو چاہتے ہو زبان سے نکال بیٹھتے ہو جب تمہاری یہ حالت ہے تو عوام بے چارے کس شمار میں ہیں ۔ عرض کیا کہ فی الحقیقت غلطی ہوئی اب آئندہ ان شاء اللہ تعالی اس کی احتیاط رکھوں گا حضرت والا معاف فرمائیں ۔ فرمایا کہ سخت افسوس ہے آپ کی حالت پر کہاں تک آخر صبر کروں اگر کہتا ہوں اور غلطیوں بدعنوانیوں پر مطلع کرتا ہوں تو بدنام ہوتا ہوں اگر نہ کہوں تم خراب اور برباد ہوتے ہو مگر اچھا آئندہ کےلئے آپ وعدہ کرتے ہیں ۔ بہتر اب سوال کیجئے میں بھی دیکھوں اب وہ غلطی نہ کریں گے ۔ اس پر ان مولوی صاحب نے دوبارہ سوال کیا فرمایا کہ اب بالکل ٹھیک ہے دیکھئے ذرا فکر سے سوال صحیح ہو گیا میں تو کہا کرتا ہوں کہ غلطیوں کا سبب زیادہ بد فہمی نہیں ہے بلکہ بے فکری ہے اسی وقت مشاہدہ کر لیجئے کہ اگر بدفہمی اس کا سبب ہوتی تو پھر اس وقت ایسی جلدی کیسے سمجھ میں آ سکتا تھا چونکہ بے فکری اس کا سبب ہوئی تھی فکر کیا سوال ٹھیک ہو گیا فرمایا کہ سوال کا جواب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے حقیقی غلطی نہیں ہوتی ان کی شان ہی یہ ہے کہ غلطی سے معصوم ہوں اور اگر بظاہر کوئی غلطی معلوم بھی ہو تو اس غلطی کو حق تعالی ہی غلطی فرما سکتے ہیں ہم کو حق نہیں کہ ہم اس کو غلطی کہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ حقیقت میں وہ غلطی ہوتی ہی نہیں بلکہ وہ بھی طاعت ہوتی ہے مگر وہاں کوئی طاعت اس سے بڑھ کر ہوتی ہے جو فوت ہو گئی جس کے مقابلہ میں اس کو غلطی کہا گیا ۔ خلاصہ کلام کا یہ ہے کہ اس سے افضل کے ترک کو غلطی فرمایا مثلا آدم علیہ السلام نے گندم کھایا اس طمع میں کہ فرشتہ ہو جاؤں تو کیا یہ خیال آدم علیہ السلام کا کہ فرشتہ ہونا چاہا غیر طاعت تھا ظاہر ہے کہ طاعت ہی تھا مگر اس سے بڑھ کر طاعت یہ تھی کہ بشررہ کر ترقی فرماتے بس اسکا ترک افضل کا ترک تھا اور وہ بھی اجتہاد سے جس سے اس میں اور خفت آ گئی اسی سلسہ میں ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں حضرت حاجی صاحب کی تحقیق فرمائی کہ معرفت الہیہ کی دو قسمیں ہیں ایک معرفت ہوتی ہے علمی اور ایک ہوتی ہے حالی ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو معرفت علمی تو حاصل تھی لیکن معرفت حالیہ اس واقعہ پر موقوف تھی چنانچہ اگر ان سے مواخذہ نہ ہوتا تو منتقم کی