ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
قول اور فعل سے دوسرے کو اذیت نہ ہو ۔ میں ایک واقعہ عرض کرتا ہوں کہ اس سے میری حالت کا اندازہ ہو جائے گا ۔ ایک شخص ہیں میں نے پچیس برس ان کی اذیتیں اور بے ہودگیاں برداشت کیں اس کے بعد خواجہ صاحب کے سپرد کیا وہ تین ہی ماہ میں چیخ اٹھے کہ یہ شخص مخاطبت کے قابل نہیں حالانکہ خواجہ صاحب بے حد رحم دل شخص ہیں اکثر لوگوں کے افعال اقوال میں تاویلات کرتے رہتے ہیں اور مجھ سے معافی وغیرہ کی سفارش اور کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اس شخص سے میں اب بھی منقبض ہوں لیکن باوجود انقباض کے اس وقت بھی خیریت معلوم کرنے کی ان کو اجازت دے رکھی ہے ۔ جب میں دوسرے کی اتنی رعایت کروں اور خیال رکھو تو کیا مجھ کو اتنا بھی حق نہیں کہ میں یہ چاہوں کہ مجھ کو ستاؤ مت ۔ خدمت سے مجھے آدھی رات بھی انکار نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ سلیقہ سے خدمت لو ۔ اور حضرت یہ تو وہ طریقہ ہے کہ اس میں اپنے مربی سے عشق کا درجہ ہونا چاہئے ۔ جب تک یہ حالت نہ ہو اس طریق میں قدم رکھنا محض بیکار ہے ۔ جب یہ ہے تو اس کےلئے تیار ہو کر آنا چاہئے ۔ اسی کو فرماتے ہیں ۔ دررہ منزل لیلی کہ خطرہاست بجان شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی اور جب یہ حالت نہیں نہ قلب میں عشق کا درجہ ہے اور نہ اس راہ میں پیش آنے والی باتوں کی برداشت تو پھر قدم ہی کیوں رکھا دعوی ہی کیوں کیا ۔ اس راہ میں چلا ہی کیوں ۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ۔ تو بیک زخمے گر یزانی زعشق تو بجز نامے چہ میدانی زعشق یعنی جب تیرے قلب میں ہر مواخذہ اور محاسبہ روک ٹوک ڈانٹ ڈپٹ پر کدورت پیدا ہوتی ہے اور اس کی برداشت نہیں کر سکتا تو اس کوچے میں آیا ہی کیوں یہ کوچہ تو عشاق کے لئے ہے تو محبوب کی راہ میں ہزاروں دشوار گھاٹیاں ہیں ان کے طے کرنے میں تکان بھی ہو گا آ بلے بھی پڑیں گے اگر برداشت نہیں اور اتنی قوت نہیں اور ہر چرکہ پر قلب مکدر ہوتا ہے تو پھر صفائی کیسے ہو گی اسی کو مولانا فرماتے ہیں ۔ وربہر زخمے تو پرکینہ شوی پس کجابے صیقل آئینہ شوی چوں نداری طاقت سوزن زدن پس تو از شیر ژیان ہم دم مزن