ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
بیان انہوں نے یہ کیا کہ میں حاجی وارث علی صاحب سے مرید ہوں ۔ پہلے تو میری یہ حالت تھی کہ نماز میں جی لگتا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ میں ایک وسیع میدان میں ہوں اور دل پر فرحت اور ذوق شوق ہے ۔ اب میری وہ حالت نہیں رہی میں نے اپنے دل میں کہا کہ ان کو حقیقت کس طرح سمجھاؤں ۔ خیر میں نے اختیاری غیر اختیاری کے مسئلہ پر تقریر کی مگر اس تقریر کرنے میں بڑی تنگی ہوئی اس لئے کہ ان کے مذاق اور فہم کی رعایت کر کے تقریر کرنا پڑی ۔ پھر بعد تقریر کے میں نے گھر میں سے کہا کہ پوچھو ان سے کہ یہ سمجھ بھی گئیں یا نہیں ۔ کہا کہ سمجھ گئی ۔ اور قرائن سے امید بھی یہی معلوم ہوئی کہ سمجھ گئی ہونگی ۔ تقریر نہایت سہل تھی اور یہی سبب تھا تنگی کا ۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ اب صاف بات کہتا ہوں کہ کبھی تم دھوکہ میں رہو ۔ وہ یہ ہے کہ تم حاجی وارث علی سے مرید ہو ہم ان کو اچھا نہیں سمجھتے وہ پابند شریعت نہ تھے اگر تم ان سے تعلق اور عقیدت رکھتی ہو تم ہم سے نہ رکھو اور اگر ہم سے تعلق اور عقیدت رکھتی ہو تو ان سے مت رکھو یہ میں نے اس لئے کہہ دیا کہ دھوکہ نہ ہو ۔ حاجی وارث علی کی یہ حالت تھی کہ نماز وہ نہیں پڑھتے تھے ۔ جو ان عورتوں سے ہاتھ پیر دبواتے تھے اور ان پر کچھ عجیب قسم کی حالت رہتی تھی ۔ ربودگی کا سا غلبہ رہتا تھا لیکن ایسے بھی نہ تھے کہ ہوش نہ ہو ۔ ایسی حالت تھی جیسے استغراق والوں کی مگر اس کو صوفیہ کا سا استغراق بھی نہیں کہہ سکتے ہاں کاہنوں کی سی حالت کہہ سکتے ہیں ۔ ان کی حالت بالکل کاہنوں کی حالت تھی ۔ ایک نہایت معتبر اور ثقہ شخص نے مجھ سے بیان کیا تھا ان راوی کا نام باقر علی تھا ۔ نواب قطب الدین خان صاحب کے مرید تھے ۔ ان کا بیان ہے کہ پہلے یہ بڑے پکے نمازی تھے مگر حج سے آکر نماز چھوڑ دی وہ کہتے تھے کہ میں نے خود حاجی وارث علی سے پوچھا تھا کہ نماز کیوں چھوڑ دی ۔ جواب میں یہ کہا کہ میں نے ایک سفلی عمل پڑھا ہے اگر نماز پڑھوں گا تو وہ جاتا رہے گا ۔ سو کچھ تعجب نہیں یہی بات ہو ۔ حالت بظاہر ایسی ہی تھی ۔ مگر ایک عجیب واقعہ ہے حاجی وارث علی نے ایک مرید کو یہاں پر بھیجا تھا کہ وہاں فلاں شخص سے مثنوی پڑھ کر آؤ (میں مراد ہوں ) اس وقت میرے یہاں مثنوی ہوتی تھی ۔ اس شخص نے آکر مجھ سے کہا کہ میں مثنوی پڑھنے آیا ہوں اور ان کا بھیجا ہوا ہوں میں نے کہا کہ سبق میں بیٹھ جایا کرو لیکن ایک شرط ہے وہ یہ کہ ہم حاجی وارث علی کو اچھا نہیں سمجھتے اور گو ہمارا یہ مشغلہ تو ہے نہیں لیکن ذکر آ