ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
ڈالتا ہے اس کے جذبات اور نیت کے آثار اس چیز میں پیوست ہو جاتے ہیں اور اس سے منفک نہیں ہوتے اور اس شخص کے تعلق رہتے ہوئے اس بناء کی اصلاح صرف مشکل ہی نہیں بلکہ عادۃ محال ہے اور اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے ایک تلخ درخت بویا جاوے اور ایک بزرگ کو شربت کا مٹکا دیکر اس کی جڑ میں بٹھلا کر عرض کیا جائے کہ اس کو بیٹھے ہوئے اس شربت سے سینچا کرو مگر جس وقت وہ درخت برگ و بار پھول پھل لائے گا سب تلخ ہونگے اسی طرح یہاں بھی کسی عالم اور بزرگ کو شریک کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے تب بھی یہ کمی پوری نہیں ہو سکتی یہ ممکن ہے کہ خود شرکت کرنے والے میں اس کے الٹے آثار پیدا ہو جائیں ۔ چنانچہ تحریک خلافت کے زمانہ میں جب یہ لوگ علی گڑھ کالج کو ختم کرنے اور بند کرنے کے ارادہ سے علی گڑھ پہنچے اور جلسہ قرار دیا تو یہی کہا کہ یہ سب نقصانات اس کالج کی اور اس کی تعلیمات کی بدولت مسلمانوں کو پہنچے اس نے ہندوستان میں انگریزیت عیسائیت دہریت پھیلائی ۔ یہ کہنے والے بڑے بڑے لیڈر مسلمان تھے جو اسی کالج کے تعلیم یافتہ تھے میں نے سن کر کہا کہ یہ لوگ تو آج پچاس برس کے تجربہ کے بعد اس بات کو سمجھے اور ہمارے ایک مبصر یہی بات اس کی بنیاد پڑنے کے وقت کہہ گئے تھے کہ اس کے یہ نتائج ہوں گے ۔ مبصر اور غیر مبصر میں یہی تو فرق ہوتا ہے اس لئے ناقص کا کامل کو اپنے پر قیاس کرنا سخت جہل ہے ایک شخص کی فراست اور عقل میں نور ہے دوسرے میں نہیں اور وہ نور طاعت کا ہے اس حالت میں کسی کو اپنے پر قیاس نہ کرنا چاہئے اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ کارپا کان راقیاس از خود یگر گرچہ ماند در نوشتن شیر و شیر یہی معیار میرے ذہن میں تھا جس پر میں نے ان تحریکات کی حقیقت کو سمجھا مجھ کو کتابیں دیکھنے کی کلفت نہیں ہوتی ۔ بحمد اللہ تعالی اپنے بزرگوں سے ضروری ضروری باتیں کانوں میں پڑ چکی ہیں ان کی بدولت میں زائد از ضرورت کتابوں سے مستغنی ہوں ۔ وہاں تو سر سید کے متعلق یہ فرمایا گیا تھا کہ تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ شخص ہے کہ جس کی نیت تو اچھی ہے مگر عقل نہیں ۔ ایک وہ شخص ہے کہ جس میں عقل ہے لیکن نیت اچھی نہیں ۔ اور ایک وہ شخص