آج پچاس باون سال گزر نے کے بعد آپ کے دست مبارک کی چمک دل میں اور آنکھوں میں تازہ ہے ،دست مبارک کی پشت پر ایک رگ ابھری ہوئی اب بھی نگاہوں کے سامنے ہے ، اب یہ خیال نہیں ہے کہ لکھ کر آپ نے کاغذ کیا کیا ، پھر میری آنکھ کھل گئی ، وہ دن میرے لئے عید سے بڑھ کر تھا ، دن بھر بلکہ ایک مدت تک سرمستی سی رہی۔
جن دنوں میں شرح وقایہ پڑھ رہاتھا ، ایک شب خواب میں دیکھا کہ میں مدینہ طیبہ میں حاضر ہوں ، طبیعت خوشی سے بے تاب ہے ، میں تلاش کررہا ہوں کہ رسول اکرم ا کہاں تشریف فرما ہیں ، رات کا سماں ہے، اچانک مشہور صحابی حضرت سعد بن معاذ ص سے ملاقات ہوئی ، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا ، اور فرمایا چلو تم کو میں حضور اقدس ا کی خدمت میں پہونچادوں ، میں شوق کے قدموں سے ان کے ساتھ چلا ، کچھ دور چل کر فرمایا ، ابھی ٹھہرو ، تمہارا وقت ابھی نہیں آیا ہے ، کچھ دنوں بعد تم کو پہونچایا جائے گا ، اتنا فرمایا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی اور دل میں زیارت وحاضری کی خلش رہ گئی۔
یہ دونوں خواب مجھے ہمیشہ مستحضر رہے ، گھر پر جب یکسوئی حاصل ہوئی ، اور دل کا زخم ناسور بنتا رہا ، تو یہ خلش بھی بڑھی اور بہت بڑھی ، میں نے زیارت نبوی کے وظائف پڑھنے شروع کئے۔ دل اس جمالِ جہاں آرا کے تصور میں ہمہ وقت غرق رہتا ، رات کو عشاء کے بعد بستر پر بیٹھ کر وظیفہ پڑھتا ، اور محبت میں ڈوب کر یہ اشعار دہراتا ، پھر آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ؎
اتنا پیغام درد کا کہہ دے
جب صبا کوئے یار میں گزرے
کون سی شب وہ آئیں گے
دن بہت انتظار میں گزرے
ایک عرصہ کے درد وکسک کے بعد زیارت وحاضری نصیب ہوئی، اور متعدد بار ہوئی ۔ ایک بار دیکھا کہ آپ سے حدیث شریف کا سبق پڑھ رہاہوں ، ایک بار دیکھا کہ سحری کا وقت ہے اور میں گھی روٹی کا ملیدہ بناکر خدمت اقدس میں پیش کررہا ہوں ، آپ نے