کے ساتھ ساتھ رہتا، جدائی بہت شاق گزرتی ، مجھے یاد ہے ، جب میں مکتب کے درجہ چار میں پڑھتا تھا، تو والد صاحب علاج کی غرض سے لکھنؤ جارہے تھے ، میں بے قرار تھا ، میں نے ساتھ جانے پر اصرار تو نہیں کیا تھا ، مگر صدمۂ فراق سے نڈھال ہورہاتھا ، انھوں نے تسلی دی کہ تین روز کے بعد منگل کو آجاؤں گا،انشاء اﷲ۔ میں نے سینے پر صبر کا پتھر رکھ لیا ، کچھ تعلیم میں ، کچھ مطالعۂ کتب میں ، کچھ بہنوں کی خدمت میں بہلتا رہا، مگر منگل کا دن ذہن پر جمارہا، اس طرح جمارہا کہ آج پچپن چھپن سال کے بعد بھی ذہن ودماغ میں اس کی چمک دیکھ رہا ہوں ۔ لمحہ لمحہ گنتا رہا ، دن بھی لمبا ہوتا ، رات بھی طویل ہوتی ، مگرآخر سب گزر گئے اور منگل کا دن آگیا۔صبح سے دل کی ٹکٹکی لگی ہے، اب آرہے ہیں ، وہ آرہے ہیں ، گھر میں ہوتا اور دروازہ ذرا کھٹکتا تودوڑ کر باہر جاتا ، نہ بھی کھٹکتا تو تصورکی قوت اسے کھٹکا دیتی ،اور میرے پاؤں دوڑنے پرمجبور ہوجاتے ، شام تک نہیں آئے، اب امید ختم ہوئی اور مجھے بخارآگیا ، شدیدبخار! بدن گرمی سے پھنکنے لگا، دادامرحوم گھبرا گئے ، دوڑکر حکیم صاحب کے یہاں سے دوا لائے ، مگر یہ بخار جسم کا نہ تھا کہ دوا سے اتر جاتا ، یہ دل کا بخار تھا ، جو دوا سے متاثر نہیں ہوتا ۔ دوسرے دن شام تک بستر پر پڑا رہا۔ عصر کے وقت ڈاکیہ آیا ، اس نے ایک پوسٹ کارڈ دیا۔ یہ والد صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہواتھا اور میرے ہی نام تھا، کہ
مجھے ایک ضرورت کی وجہ سے دودن اور ٹھہرنا پڑے گا۔
میں انشاء اﷲ جمعرات کو شام تک آجاؤں گا۔
بس خط کا ملنا تھا، کہ بخار یکلخت اتر گیا ، بدھ کا دن تو گویا گزرچکاتھا، کل آجائیں گے، یہ خیال آیا اور میں بالکل تندرست ہوگیا ، ہنستا کھیلتا، ہشاش بشاش سب کو یہ دو سطر کا خط دکھاتا پھررہا تھا۔
والدہ کے انتقال کے بعد والدصاحب ، دونوں محبتوں کے مرکز ہوئے ، اس کے ساتھ دوسری ہستی جس سے میں نے ٹوٹ کر محبت کی وہ میری نانی تھیں ۔ میرا نانیہال گاؤں میں ہے، میں روزانہ نانی کے پاس جاتا تھا ، جب تک ان کے پاس نہ جاتا چین نہ آتا ، کبھی