تھا،مشورے ہورہے تھے کہ کس کو صدارت کیلئے بلایاجائے ،یاد نہیں کس نے تجویز رکھی کہ اس سال دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا فخرالدین صاحب کو تکلیف دی جائے ، میرے توتصورمیں یہ بات نہیں تھی کہ اتنے عظیم المرتبت بزرگ کو جوعمر کی آخری منزلوں میں ہیں اورانتہائی نحیف ونزار بھی ہیں تکلیف دی جائے، ہمارے ساتھی جودیوبند سے آتے تھے حضرت شیخ الحدیث کوکاغذ کا آدمی کہتے تھے، لیکن اللہ جانے وہ کون سی ساعت تھی کہ حق تعالیٰ کے حضور یہ تجویز قبول ہوگئی ،حضرت مولانا محمدمسلم صاحب نے اس تجویز کو بنظر استحسان دیکھا، حضرت کو خط لکھاگیا، حضرت نے منظورفرمالیا ،طے یہ ہواکہ ہوائی جہاز سے حضرت کو لایا جائے گا، دیوبند سے دلی گاڑی سے ، دلی سے بنارس ہوائی جہاز سے، پھر بنارس سے مبارک پور گاڑی سے! دارالعلوم مئو کے ارباب حل وعقد کومعلوم ہواتو انھوں نے بھی اس سعادت میں شرکت چاہی، اورحضرت سے درخواست کی کہ انجمن کے جلسے کے بعد دارالعلوم مئو میں بخاری شریف کاآخری درس دیں ،حضرت نے منظور فرمایا،اب حضرت کی آمدورفت کے اخراجات نصف نصف دوجگہوں پر تقسیم ہوگئے،حضرت پروگرام کے مطابق مبارک پور تشریف لائے، طلبہ میں اساتذہ میں خوشی کاعجیب سماں تھا،جوبات سوچی نہیں جاسکتی تھی اسے اپنے سامنے موجود دیکھ رہے تھے،ہم لوگوں نے جلسہ کاجو اشتہار طبع کرایاتھا، اس میں حضرت شیخ الحدیث کے شاگرد خاص حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ساحرؔمبارک پوری نے شیخ کیلئے مقفیٰ اورمسجع القاب لکھے تھے، جومبالغہ نہیں مبنی بر حقیقت تھے، مولانا نے ایک استقبالیہ نظم بھی لکھی تھی نہایت عقیدت مندانہ اورمرصع! مبارک پورکے مشہورخوش آواز قاری حضرت مولانا قاری انوارالحق صاحب علیہ الرحمہ نے جب اسے جلسہ میں پڑھا تو عقیدت ومحبت کا ایک سماں بندھ گیا ،مجمع میں حضرت شیخ الحدیث کا وجود اس قدرنورانی اور تابناک تھا کہ گویاآدمیوں کے ہجوم میں فرشتہ اترآیاہے سب کی نگاہیں ان کی طرف لگی ہوئی تھیں ۔
ہم لوگوں نے اپنی سعادت کیلئے حضرت شیخ الحدیث سے درخواست کی کہ ہدایہ اول کا آخری سبق پڑھادیں ،حضرت نہایت بشاشت سے تیار ہوگئے، چنانچہ بندہ نے عبارت