کا تقاضا تو یہ تھا کہ پورا وقت سبب ہوتا اور بندہ عبادت سے بالکل فارغ ہی نہ رہتا ،کیونکہ اللہ کی نعمتیں ہر آن برستی رہتی ہیں،لہٰذا ہر وقت نعمتوں کے شکر میں عبادت لازم رہتی __مگر بندوں کو سہولت دینے اور مشقت میں پڑنے سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کو سبب قرار دیا__ اور وجوبِ ادا کا سبب حقیقی بندے کے فعل کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے طلب کا وابستہ ہونا ہے اور سبب ظاہری امر ہے جو اس طلب کے قائم مقام ہوکر سبب ظاہری ہوگیا ۔
وَالْاَصْلُ فِیْ ھٰذَا النَّوْعِ اَنَّہٗ لَمَّاجُعِلَ الْوَقْتُ ظَرْفًا لِلْمُؤدّٰی وَسَبَبًا لِلْوُجُوْبِ لَمْ یَسْتَقِمْ اَنْ یَّکُوْنَ کُلُّ الْوَقْتِ سَبَبًا لِاَنَّ ذٰلِکَ یُوْجِبُ تَاخِیْرَالْاَدَاءِ عَنْ وَقْتِہٖ اَوْتَقْدِیْمَہٗ عَلٰی سَبَبِہٖ فَوَجَبَ اَنْ یُّجْعَلَ بَعْضُہٗ سَبَبًا وَھُوَ الْجُزْءُ الَّذِی یَتَّصِلُ بِہٖ الْاَدَاءُ فَاِنِ اتَّصَلَ الْاَدَاءُ بِالْجُزْءِ الْاَوَّلِ کَانَ ھُوَ السَّبَبَ وَاِلَّایَنْتَقِلُ السَّبَبِیَّۃُ اِلَی الْجُزْءِ الَّذِی یَلِیْہِ لِاَنَّہٗ لَمَّا وَجَبَ نَقْلُ السَّبَبِیَّۃ عَنِ الْجُمْلَۃِ وَلَیْسَ بَعْدَ الْجُمْلَۃِ جُزْءٌ مُّقَدَّرٌ وَجَبَ الْاِقْتِصَارُ عَلَی الْاَدْنٰی وَلَمْ یَجُزْ تَقْدِیْرُہٗ عَلٰی مَاسَبَقَ قُبَیْلَ الْاَدَآءِ لِاَنَّ ذٰلِکَ یُؤَدِّیْ اَلَی التَّخَطِّیْ عَنِ الْقَلِیْلِ بِلَادَلِیْلٍ ثُمَّ کَذٰلِکَ یَنْتَقِلُ اِلٰی اَنْ یَّتَضَیَّقَ الْوَقْتُ عِنْدَ زُفَرَؒ وَاِلٰی اٰخِرِ جُزْءٍ مِّنْ اَجْزَاءِ الْوَقْتِ عِنْدَ نَافَتَعَیَّنَ السَّبَبِیَّۃُ فِیْہِ لِمَایَلِی الشُّرُوْعُ فِی الْاَدَاءِ اِذْلَمْ یَبْقَ بَعْدَہٗ مَایَحْتَمِلُ اِنْتِقَالُ السَّبَبِیَّۃِ اِلَیْہِ
ترجمہ:-اور اصل اس نوع میں یہ ہے کہ جب وقت کو بنایا گیا مؤدّٰی کے لئے ظرف اور وجوب کے لئے سبب ،تو درست نہ ہوگی یہ بات کہ پورا وقت سبب ہو ،اس لئے کہ یہ واجب کرتا ہے ادا کی تاخیر کو اس کے وقت سے یا اس کی تقدیم کو اس کے سبب پر، پس واجب ہے یہ کہ بعض وقت کو سبب بنایا جائے اور وہ بعض وقت وہ جز ء ہے جس سے ادا متصل ہے، پس اگر ادا جزء اول سے متصل ہوتو وہی سبب ہوگا ورنہ سببیت منتقل ہوگی اس جزء کی طرف جو اس سے متصل ہے اس لئے کہ جب واجب ہو اسببیت کو منتقل کرنا کل وقت سے ،اور نہیں ہے کل وقت کے بعد کوئی معین جزء تو واجب ہوا اکتفاء کرنا ادنی پر اور جائز نہیں ہے معنی ٔ سببیت کو باقی رکھنا ان اجزاء پر جو ادا سے پہلے گزر چکے ،اس لئے کہ یہ پہچائے گا بغیر دلیل کے قلیل سے تجاوز کی طرف پھر اسی طرح سببیت منتقل ہوتی رہے گی ،یہاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے امام زفرؒ کے نزدیک اور وقت کے اجزاء میں سے آخری جزء تک ہمارے نزدیک ،پس سببیت متعین ہوجائے گی اس آخری وقت میں اس جز کے لئے جو شروع فی الاداء سے متصل ہے اس لئے کہ نہیں باقی رہا اس جز کے بعد ایسا کوئی جزء جس کی