فرع کی طرف حکم کو متعدی کرنا ، تاکہ تعلیل کا باطل ہونا لازم نہ آئے، اس لئے تعدیہ کو لازم قرار دیا۔
فان قیل التعلیل :-معترض کہتا ہے کہ تعلیل میں اگر تعدیہ نہ بھی ہو ،بلکہ تعلیل علت قاصرہ سے یعنی علت ِغیر متعدیہ سے ہو،تو تعلیل سے یہ فائدہ تو ضرورحاصل ہوجائے گا کہ نص کا حکم اسی نص کے ساتھ خاص ہے،تو نص کے حکم کا نص کے ساتھ خاص ہونا یہ تعلیل سے معلوم ہوا،تو اتنا فائدہ کا فی ہے، خواہ مخواہ تعدیہ کے چکر میں پڑ کر کیوں وقت ضائع کرتے ہیں؟
مصنفؒ نے ایک جواب تو یہ دیا کہ اختصاص کا جو فائدہ آپ بتارہے ہیں وہ تو بغیر تعلیل کے بھی حاصل ہے، اس لئے کہ نص خود اپنے صیغہ کی وجہ سے اس پر دلالت کرتی ہے کہ حکم صرف منصو ص علیہ میں ثابت ہے ،اس کے علاوہ میں ثابت نہیں ہے اورتعلیل سے اس میں عموم کا فائدہ ہوتا ہے،جس سے حکم دوسری طرف متعدی ہوتا ہے ،اگر اس تعدیہ کو نہ مانو گے تو تعلیل بیکار ہوجائے گی ،کیونکہ اختصاص تو پہلے سے ہی موجود ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اصل میں ایسے دو وصفوں کا جمع ہونا جائز ہے جو متعدی ہوں،ایک کا تعدیہ قوی اور دوسرے کا ہلکا ہو ،اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ اصل میں ایسے دووصف جمع ہوں، جن میں ایک متعدی اور دوسرا غیر متعدی ہو،جب بات یوں ہے تو علتِ غیر متعدیہ کے ساتھ تعلیل مجتہد کو علتِ متعدیہ کے ساتھ تعلیل سے نہیںروکے گی یعنی مجتہد جیسے علت غیر متعدیہ کے ساتھ تعلیل پیش کرسکتا ہے،(جس میں اختصاص ہوسکتا ہے )ایسے ہی علت متعدیہ کے ساتھ بھی تعلیل پیش کرسکتا ہے،جب علتِ متعدیہ کے ساتھ وہ تعلیل کرے گا تو یہ حکم اور جگہ متعدی ہوگا ،تو حکم کا اصل کے ساتھ خاص رہنے کا فائدہ کہاں رہے گا ،باطل ہوجائے گا ،پس آخر میں اسی بات پر آنا پڑے گا کہ تعلیل میں تعدیہ کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہے ، لہٰذا تعلیل کے لئے تعدیہ لازم ہے۔
وَاَمَّا دَفْعُہٗ فَنَقُوْلُ الْعِلَلُ نُوْعَانِ طَرْدِیَّۃٌ وَمُؤَثِّرَۃٌ وَعَلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِنَ الْقِسْمَیْنِ ضُرُوْبٌ مِنَ الدَّفْعِ اَمَّاوُجُوْہُ دَفْعِِِ الْعِلَلِ الطَّرْدِیَّۃِ فَاَرْبَعَۃٌ اَلْقَوْلُ بِمُوْ جَبِ الْعِلَّۃِ ثُمَّ الْمُمَانَعَۃُ ثُمَّ بَیَانُ فَسَادِ الْوُضْعِ ثُمَّ الْمُنَاقَضَۃُاَمَّا الْقَوْلُ بِمُوْجَبِ الْعِلَّۃِ فَالْتِزَامُ مَا یُلْزِمُہٗ الْمُعَلِّلُ بِتَعْلِیْلِہٖ وَذٰلِکَ مِثْلُ قَوْلِھِمْ فِی صَوْمِ رَمْضَانَ اَنَّہٗ صَوْمُ فَرْضٍ فَلَایَتَاَدّٰی اِلَّابِتَعْیِیْنِ النِّیَۃِ فَیُقَالُ لَھُمْ عِنْدَ نَالَا یَصِحُّ اِلَّا بِتَعْیِیْنِ الِنَّیَۃِ وَاِنَّمَا نُجَوِّزہٗ بِاِطْلَاق النِّیَۃِعَلٰے اَنَّہٗ تَعْیِیْنٌ
ترجمہ:-اور بہرحال دفعِ قیاس تو ہم کہتے ہیں کہ علتوں کی دوقسمیں ہیں، طردیہ ،مؤ ثرہ ،اور ان دونوں قسموں میں