دین ساقط ہوجاتا ہے،البتہ بطور احسان کے کوئی اس کی طرف سے قرض ادا کردے تو بالا تفاق صحیح ہے،صاحبین اور امام شافعیؒ فر ماتے ہیں کہ میت کی طرف سے دین کا کفیل بننا صحیح ہے،چاہے اس نے مال وکفیل نہ چھوڑا ہو،کیونکہ موت انسان کو قرض سے بری نہیں کرتی ،اسی لئے بطور تبرع کے قرض کی ادائیگی میت کی طرف سے درست ہے۔
بخلاف العبد المحجور:-ایک اعتراض کا جواب ہے،جس کا حاصل یہ ہے کہ ذمہ کا ضعیف ہونامیت اور عبدِمحجور دونوںمیں برابر ہے،توپھرمیت کی طرف سے کفالت صحیح نہیں،اور عبدِمحجور کی طرف سے کفیل بننا صحیح ہے ایسا کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ عبد محجور اگر کسی کے دین کا اقرار کرے تو اس کی طرف سے کفیل ہوناصحیح ہے، اس لئے کہ عبدِ محجور کے عاقل بالغ اور مکلف ہونے کی وجہ سے اس کا ذمہ کامل ہے،اور اگر آقا دین کی تصدیق کرے یا اس کو آزاد کرے تو فی الحال مطالبہ بھی صحیح ہے تو کفالت بھی صحیح ہے ،کیوںکہ کفالت کا مدار مطالبہ کی صحت پر ہے یعنی جس سے مطالبہ صحیح ہے اس کی کفالت صحیح ہے __اور میت میں چونکہ مطالبہ درست نہیں تو کفالت بھی درست نہیں ہے ، اور اگر مولی دین کی تصدیق نہ کرے یا آزاد نہ کرے تو عبدِ محجور سے فی الحال اگرچہ مطالبہ درست نہیں ہے ، مگر اس سے مطالبہ ممکن ہے،جب آقا آزاد کرے گا تو مطالبہ درست ہوگا، لہٰذا کفالت صحیح ہے۔
وانما ضمت الیہ المالیۃ:-ایک سوالِ مقدر کا جواب ہے،کہ جب عبد ِمحجور کا ذمہ کامل ہے تو آقا کے حق میں اس کے ساتھ مالیت ِرقبہ کو کیوں ملایا گیا ہے،یعنی آقا کے حق میں اس کو مالیت کیوں ماناگیا ،کہ یہ آقا کا مال ہے۔
اس کا جواب دے رہے ہیں کہ عبدِ محجور کا ذمہ خود اس کے حق میں تو کامل ہے کیوں کہ وہ عاقل بالغ ہے ، مگر مولی کے حق میں اس کا ذمہ ناقص ہے ، اور مولی کے حق میں ناقص اس لئے مانا گیا تاکہ مولی نقصان سے بچ جائے ، کیوںکہ اگر مولی کے حق اس کا ذمہ کامل مانا گیا تو غلام سے فی الحال مطالبہ درست ہوگا تو غلام آزاد ہوجائے گا ، اور اس میں مولی کا نقصان ہے ، مولی کو نقصان سے بچانے کے لئے مولی کے حق میں ذمہ کے ساتھ مالیت رقبہ کو ملایا گیا ، کہ یہ مولی کا رقبہ ہے، لہٰذا فی الحال غلام سے مطالبہ درست نہ رہا، اور نہ مولی کی مرضی کے بغیر اس کو فروخت کرنا درست رہا۔
(۳)تیسری قسم وہ احکام جو میت پر بطور صلہ واحسان کے مشروع ہیںجیسے محارم کا نفقہ ،صدقۂ فطر وغیرہ تو یہ احکام بھی موت سے باطل ہوجائیں گے،لہٰذا محارم کا نفقہ میت کے ذمہ گذشتہ ایام کا ہو، یا آئندہ سب ساقط ہوجائے گا، محارم کو یہ حق نہیں ہے کہ میراث سے وصول کریں ۔البتہ اگر میت نے صلہ وتبرع کی وصیت کی ہوتو تہائی مال سے اس کی وصیت نافذ کردی جائے گی۔