ناقص ہوتی ہیں،لہٰذا اہلیت ِ قاصرہ ہوگی،اہلیت ِ قاصرہ کی دوسری صورت،بالغ ہونے کے بعد کوئی شخص معتوہ کم عقل ہے تو بدن اگر چہ کامل ہے مگر عقل ناقص ہے ،لہٰذا اہلیت ِ قاصرہ ہوگی،کیونکہ یہ شخص بچہ کے درجہ میںہے،عقل میں اعتدال نہ ہونے کی وجہ سے،تو یہ اہلیتِ قاصرہ کی دوسری صورت ہے۔
مصنفؒ کہتے ہیں کہ اہلیتِ قاصرہ پر صحتِ ادامبنی ہے،یعنی اہلیتِ قاصرہ میں بندہ پر ادا واجب تو نہیں ہے لیکن اگر اداکرے گا تو اداصحیح ہوجائے گی،اور اہلیتِ کاملہ پر وجوبِ ادامبنی ہے اور اس پر خطاب کا متوجہ ہونا مبنی ہے،یعنی اہلیت ِ کاملہ کے بعد بندہ پر ادا بھی واجب ہے اور شارع کا خطاب بھی بندہ کی طرف متوجہ ہے۔
وعلی قلنا انہ صح:-اہلیتِ قاصرہ پر صحتِ ادا مبنی ہے،اس اصول پر چند جزئیات پیش کررہے ہیں، (ا)عاقل بچہ کا اسلام صحیح ہے،اگر چہ اس پر اسلام قبول کرنا واجب نہیں ہے،مگر اسلام قبول کرلیا تو صحیح ہے احکامِ دنیا میں بھی اور احکام آخرت میں بھی، اور امام شافعیؒ کے نزدیک بالغ ہونے سے پہلے احکام ِدنیا میں اس کا اسلام صحیح نہیں ہے،لہٰذا وہ اپنے کافر باپ کا وارث بنے گا ،اور اس کے نکاح میں مشرکہ بیوی ہے تو بائنہ نہ ہوگی کیونکہ احکامِ دنیا میںاس کے اسلام کوصحیح قرار دینے میں اس کا نقصان ہے،البتہ احکامِ آخرت میں اس کا ایمان صحیح ہے لہٰذا وہ اپنے ایمان پر اجروثواب کا مستحق ہوگا۔
(۲)اور جن تصرفات میں خالص نفع ہے جیسے ہبہ اور صدقہ قبول کرنا،وہ تمام تصرفات بچے کے درست ہیں،کیونکہ اہلیتِ قاصرہ کے ساتھ ادادرست ہے لہٰذا یہ تصرفات بغیر ولی کی اجازت کے بھی درست ہیں۔
(۳)عباداتِ بدنیہ کی ادائیگی بھی بچہ سے درست ہیں،اگر چہ یہ عبادات بچہ پر لازم نہیں ہیں،کیونکہ اس میں بچہ کا نفع ہی ہے کہ بچہ ان عبادات کا عادی بن جائے گااور بالغ ہونے کے بعد اس پر شاق نہ ہوگا ،اسی لئے حضورؐ نے سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم کرنے کی اور دس سال کی عمر میں نہ پڑھنے پر مارنے کی تاکید فرمائی ہے۔
(۴)وہ معاملات جن میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہیںجیسے بیع تو بچہ ولی کی اجازت سے ان تصرفات کامالک ہوگا،کیونکہ بچہ کی رائے اگر چہ ناقص ہے مگر ولی کی رائے اور اجازت سے اس کی تلافی ہوجائے گی ،لہٰذا بقول امام ابوحنیفہ یہ بچہ بالغ کی طرح ہوجائے گا،لہٰذا اس بچہ نے اگر ولی کی اجازت سے اجنبی سے غبن فاحش کے ساتھ بیع کی تو امام صاحب کے نزدیک یہ بیع درست ہے ،برخلاف صاحبین کے کہ ان کے نزدیک ولی کی اجازت کے بعد بھی بانالغ بچہ کا تصرف غبن فاحش کے ساتھ درست نہ ہوگا ۔
اور اگر ولی کی اجازت کے بعد بچہ نے خود ولی سے غبن فاحش کے ساتھ معاملہ کیا تو اس میں امام صاحب کی دو روایتیں ہیں،ایک روایت میں بچہ کا ولی کے ساتھ معاملہ درست ہے کیونکہ بچہ بالغ کے حکم میں ہے ،اور دوسری روایت