وقت کی صفت کے بدلنے سے اور ادا کی تعجیل وقت سے پہلے فاسد ہے تو وقت سبب ہوگا۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ امر مقید بالوقت کا بیان شروع کررہے ہیں فرماتے ہیں کہ امر مقید بالوقت کی چند قسمیں ہیں ، یعنی تین قسمیں ہیں ،اس لئے کہ وقت یا تو (۱) مامور بہ کے لئے ظرف ہوگا ،ظرف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مامور بہ پورے وقت کو گھیرے ہوئے نہ ہو ،مامور بہ کو ادا کرنے کے بعد وقت بچ جائے جیسے نماز (۲)یا وقت مامور بہ کے لئے معیار ہوگا، معیار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مامور بہ پورے وقت کو گھیرے ہوئے ہو ،وقت کے گھٹنے بڑھنے سے مامور بہ بھی گھٹے ،بڑھے جیسے روزہ (۳) یا تو وقت مشتبہ ہو یعنی پتہ نہ چلے کہ وقت مامور بہ کے لئے ظرف ہے یا معیار، من وجہ ظرف ہو اور من وجہ معیار ہو ،جیسے حج،تفصیل آگے آئے گی ،صاحب حسامی نے تو امرموقت کی تین ہی قسمیں ذکر کی ہیں، البتہ صاحب منار نے چار قسمیں بیان کی ہیں ،تین تو وہی جو اوپر مذکور ہوئیں اور چوتھی یہ ہے کہ وقت مامور بہ کے لئے معیار ہو مگر سبب نہ ہو ، جیسے رمضان کا قضا روزہ ،مصنف حسامی نے اس چوتھی قسم کو دوسری قسم کے ذیل میں بیان کردیا ہے،اس کو مستقل قسم نہیں بنایا ،اس لئے تین قسمیں ذکر کی،یہاں پہلی قسم بیان کررہے ہیں ۔
پہلی قسم :یہ ہے کہ وقت مامور بہ کے لئے ظرف ہو ،وقت ادا کے لئے شرط ہو ،اور وقت وجوب کے لئے سبب ہو،ظرف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مامور بہ کو ادا کرنے کے بعد وقت بچ جائے، اور شرط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مامور بہ کی ادائیگی وقت سے پہلے نہ ہوسکے اور وقت کے فوت ہونے سے مامور بہ فوت ہوجائے ،اور سبب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مامور بہ کے وجوب میں وقت کی تاثیر ہو یہا تک کہ وقت کے اوصاف کے بدلنے سے مامور بہ میں کمال ونقصان پیدا ہو ،جیسے عصر کا آخری وقت ناقص ہے، تو مامور بہ بھی ناقص واجب ہوا لہٰذا ناقص وقت میں ناقص واجب کی ادائیگی صحیح ہے،اور فجر کا پورا وقت کامل ہے تو واجب بھی کامل ہوگا، لہٰذا فجر کے آخری وقت میں دوران نماز سورج طلوع ہوا تو نماز فاسد ہوجائیگی کیونکہ طلوعِ شمس سے نماز ناقص ہوگی جب کہ واجب کامل ہوئی ہے،قسم اول کی مثال نماز ہے،نماز میں تینوں اوصاف پائے جارہے ہیں جس کو مصنفؒ بیان کررہے ہیں ،کہ وقت نماز کے لئے ظرف بھی ہے ،شرط بھی ہے اور سبب بھی ہے۔
پھر ظرف تو پورا وقت ہے البتہ سبب پورا وقت نہیں ہے، بلکہ وقت کا وہ جز جو ادا سے ملا ہوا ہے وہ سبب ہے ،یعنی اگر وقت کے پہلے جز میں نماز ادا کررہا ہے تو پہلا جز سبب ورنہ دوسرا جز تیسرا جز ،چوتھا جز ، اسی طرح آخر تک ۔
تنبیہ:-یہاںیہ بات ذہن میں رہے کہ وجوب کی دو قسمیں ہیں (۱)نفس وجوب (۲) وجوب ادا، نفس وجوب کا سبب ِحقیقی بندوں پر اللہ کی مسلسل نعمتوں کا ورود ہے،اور سبب ِظاہری وقت ہے، کیونکہ اللہ کی نعمتوں کا ورود بندوں پر وقت میں ہی ہوتا ہے، لہٰذا وقت کو سبب ِحقیقی کے قائم مقام بناکر سبب ِظاہری قرار دیا گیا ،پھر نعمتوں کے توارد